کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 408
[’’ایَامٰی‘‘ کا لفظ اگرچہ مردوں اور عورتوں کو شامل ہے، لیکن جب یہ مطلق استعمال ہو تو صرف عورتوں کو شامل ہوتا ہے، مردوں کو تب شامل ہوتا ہے، جب یہ مقید استعمال ہو۔۔۔ الخ] تفسیر فتح البیان (۶، چھاپہ مصر) میں ہے: ’’قال أبو عمرو والکسائي: اتفق أھل اللغۃ علیٰ أن الأیم في الأصل ھي المرأۃ التي لا زوج لھا، بکرا کانت أو ثیبا۔ قال أبو عبید: یقال: رجل أیم، وامرأۃ أیم، وأکثر ما یکون في النساء، وھو کالمستعار في الرجل‘‘[1]الخ [ابو عمرو اور کسائی نے کہا ہے: اہلِ لغت نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ’’الأیم‘‘ کے اصل معنی بے شوہر والی عورت کے ہیں ، خواہ وہ کنواری ہو یا ثیبہ۔ ابو عبید نے کہا ہے: کہا جاتا ہے: ’’رجل أیم‘‘ (بے جورو مرد) ’’امرأۃ أیم‘‘ (بے شوہر عورت) اس لفظ کا اکثر اطلاق عورتوں پر ہوتا ہے، مرد کے لیے استعمال میں مستعار لیا گیا ہے] تو آیتِ کریمہ کے معنی یہ ہوئے: ’’جو تم میں بے شوہر والی عورتیں ہیں ، ان کو بیاہ دو۔‘‘ اگر ’’اَیامیٰ‘‘ کا لفظ مرد و عورت دونوں کو شامل مانا جائے تو معنی یہ ہوئے: ’’جو تم میں بے جورو والے مرد و بے شوہر والی عورتیں ہیں ان کو بیاہ دو۔‘‘ تفسیر کبیر میں ہے: قولہ تعالیٰ:﴿وَاَنْکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ﴾ أمر، وظاھر الأمر الوجوب علیٰ ما بیناہ مراراً، فیدل علی أن الولي یجب علیہ تزویج مولاتہ۔۔۔ الخ‘‘[2] یعنی﴿اَنْکِحُوْا﴾ کا لفظ (جو آیت کریمہ میں ہے، جس کے معنی ہیں بیاہ دو) امر ہے اور امر کے ظاہر معنی وجوب ہیں ۔ تو یہ لفظ اس بات پر دلیل ہے کہ ولی پر اپنی مَولیَّہ کا (جس کا وہ ولی ہے) بیاہ دینا واجب ہے۔ تفسیر ابن کثیر (۷/ ۸۵ چھاپہ مصر) میں ہے: ’’ھذا أمر بالتزویج، وقد ذھب طائفۃ من العلماء إلی وجوبہ علی کل من قدر علیہ۔۔۔ الخ‘‘[3] یعنی﴿اَنْکِحُوْا﴾ امر ہے ’’إنکاح‘‘ کا اور علما کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ ہر ایک شخص پر جو ’’أیامی‘‘ کے بیاہ دینے پر قادر ہے، بیاہ دینا واجب ہے۔ واضح رہے کہ الله پاک نے اس آیت میں بے شوہر والی عورتوں کے والی وارثوں کو حکم دیا کہ تم ان کا نکاح کر دو اور یہ نہیں فرمایا کہ ان کی درخواست کا انتظار کرو، یعنی جب وہ تم سے نکاح کر دینے کی درخواست کریں ، تب تم ان کا نکاح کر دو، بلکہ مطلق فرمایا کہ تم نکاح کر دو، اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح کنواری عورتوں کے نکاح کر دینے میں ان کی درخواست کا انتظار نہیں کرتے، بلکہ شرع شریف کے مطابق ان سے اجازت لے کر ان کا نکاح کر دیتے ہیں ، اسی طرح بیوہ کے والی وارث کو چاہیے کہ ان کے نکاح کر دینے میں
[1] فتح البیان للنواب صدیق حسن خان رحمہ اللّٰه (۹/ ۲۱۳) [2] تفسیر الرازي (۲۳/ ۳۷۷) [3] تفسیر ابن کثیر (۶/ ۵۱)