کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 391
2۔ اس صورت میں بکر کی جانب سے حج جائز و مشروع ہے اور اس حجِ بدل سے فرضیت اس حج کی جو بکر کے ذمہ تھی، ساقط ہوجائے گی۔ قال البخاري في صحیحہ: عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما قال: جاء ت امرأۃ من خثعم، عام حجۃ الوداع، فقالت: یا رسول اللّٰه إن فریضۃ اللّٰه علی عبادہ في الحج أدرکت أبي شیخا کبیرا لا یستطیع أن یستوي علی الراحلۃ، فھل یقضي عنہ أن أحج عنہ؟ قال: (( نعم )) [1] ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کی کہ خثعم قبیلے کی ایک عورت نے حجۃ الوداع کے سال آکر عرض کیا: یارسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! الله کا فرض جو اس کے بندوں پر حج کے بارے میں ہے، اس فرض نے میرے باپ کو ایسی حالت میں پا لیا ہے (یعنی ایسی حالت میں میرے باپ پر حج فرض ہوا ہے) کہ وہ نہایت ہی بوڑھا ہوگیا ہے، سواری پر بھی بیٹھ نہیں سکتا تو کیا اس کی طرف سے حج ادا ہوجائے گا، اگر میں اس کی طرف سے حج کردوں ؟ فرمایا: ہاں ۔‘‘ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بکر جیسے شخص پر بھی جو کسی طرح طی مسافت کی استطاعت نہیں رکھتا، حج فرض ہوجاتا ہے اور جب حج فرض ہوگیا اور بغیر ادا کے مر گیا تو وہ فرض اس کے ذمہ باقی رہا، پس بحکم جواب سوال نمبر (۱) اس کی طرف سے حجِ بدل کرنا جائز و مشروع ہوگا اور اس حجِ بدل سے جو حج کہ اس کے ذمہ فرض تھا، اس کی فرضیت بھی ساقط ہوجائے گی۔ 3۔ دونوں کا حکم (حج کی نذر کرنے سے حج کے فرض ہوجانے اور بغیر حج ادا کیے مرجانے سے اس حجِ فرض کے ذمہ وار رہ جانے اور دونوں کی طرف سے حجِ بدل کے جائز و مشروع ہونے میں ) مساوی ہی۔ عن ابن عباس أن امرأۃ من جھینۃ جاء ت إلی النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم فقالت: إن أمي نذرت أن تحج، فلم تحج حتی ماتت، أفأحج عنھا؟ قال: (( حجي عنھا، أرأیتِ لو کان علیٰ أمک دین أکنت قاضیۃ؟ اقضوا حق اللّٰه ، ف اللّٰه أحق بالوفاء )) [2] ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جہینہ کے قبیلے کی ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں آکر عرض کیا کہ میری ماں نے حج کی نذر کی تھی اور بغیر حج کیے مر گئی تو کیا میں اس کی طرف سے حج کر دوں ؟ فرمایا: تو اس کی طرف سے حج کر دے، بھلا یہ تو بتا کہ اگر تیری ماں پر دین ہوتا تو کیا تو اس کو ادا کرتی یا نہیں ؟ الله کا حق ادا کیا کرو، کیونکہ الله کا حق وفا میں اس دین سے اَحق ہے۔‘‘ اس حدیث سے ثابت ہے کہ حج کی نذر کرنے سے حج فرض ہوجاتا ہے اور بغیر ادا کیے مر جانے سے اس حج کی
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۷۵۵) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۳۳۵) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۷۵۴)