کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 389
ہے۔ اس حجِ بدل کرانے سے جو حج کہ زید پر فرض تھا، ساقط ہو جائے گا۔ قال مسلم في صحیحہ (۱/ ۳۶۲): عن عبد اللّٰه بن بریدۃ عن أبیہ بریدۃ أن امرأۃ أتت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فقالت: إن أمي ماتت ولم تحج قط، أفأحج عنھا؟ قال: (( حجي عنھا )) [1] ’’عبد الله بن بریدۃ نے اپنے باپ بریدہ سے روایت کی کہ ایک عورت نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں آکر عرض کیا کہ میری ماں مر گئی اور اس نے حج نہیں کیا تھا تو کیا میں اس کی طرف سے حج کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی طرف سے حج کر دے۔‘‘ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حجِ بدل، یعنی کسی کی طرف سے بالنیابۃ حج کرنا جائز و محکوم شرع شریف ہے، منہی عنہ نہیں ہے۔ وقال ابن ماجہ في سننہ (ص: ۲۱۴): عن أبي الغوث بن حصین، رجل من الفرع، أنہ استفتیٰ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم عن حجۃ کانت علی أبیہ، مات ولم یحج، قال النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم (( حج عن أبیک )) [2] ’’ابو الغوث بن حصین رضی اللہ عنہ نے، جو مقام فرع کے رہنے والے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا کہ میرے باپ پر حج فرض تھا، وہ مر گیا اور حج نہیں کیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنے باپ کی طرف سے حج کر دے۔‘‘ اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ جس پر حج فرض ہو، اس کی طرف سے حجِ بدل کرنا جائز و محکوم شرع شریف ہے، منہی عنہ نہیں ہے۔ وقال الدارقطني في سننہ (ص: ۲۷۲) عن ابن عباس قال: أتیٰ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم رجل، فقال لہ: إن أبي مات، وعلیہ حجۃ الإسلام أفأحج عنہ؟ قال: (( أرأیت لو أن أباک ترک دینا علیہ أقضیتہ؟ )) قال: نعم، قال: (( فاحجج عن أبیک )) [3] ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کی کہ ایک مرد نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں آکر عرض کیا کہ میرا باپ مر گیا اور اس پر حجِ اسلام فرض تھا تو کیا میں اس کی طرف سے حج کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو یہ تو بتا کہ اگر تیرا باپ اپنے اوپر دین (قرض) چھوڑ جاتا تو کیا اس کی طرف سے اس کا دین ادا کر دیتا؟ عرض کیا: ہاں ، فرمایا: تو تو اپنے باپ کی طرف سے حج بھی کر دے۔‘‘ وقال الدارقطني في سننہ أیضاً (ص: ۲۷۲): عن ابن عباس أن رجلا سأل رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۱۴۹) [2] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۲۹۰۵) اس کی سند میں ’’عثمان بن عطاء الخراساني‘‘ راوی متروک ہے۔ البتہ اسی معنی میں اس سے ماقبل مذکور روایت صحیح ہے۔ دیکھیں : سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۲۹۰۴) صحیح ابن خزیمۃ (۴/ ۳۴۳) [3] مسند أحمد (۱/ ۲۱۲) سنن الدارقطني (۲/ ۲۶۰)