کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 384
(۱) و نمبر (۳) کے درمیان وہ راوی جو واسطہ پڑتا ہے، بڑھ جاتا ہے اور بڑھ کر کبھی سب مل کر چار ہوجاتے ہیں اور کبھی چار سے بھی زیادہ ہوجاتے ہیں ، جب کہ واسطہ ایک سے زائد ہوجاتا ہے اور کبھی نمبر (۳) کے انگریزی میں ہونے کی وجہ سے کسی انگریزی دان سے مضمون تار کے انگریزی میں لکھوانے کی ضرورت پڑتی ہو، ایسی حالت میں راویوں کی تعداد اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اور بھی واضح ہو کہ نمبر (۳) کے حالات کی تفتیش میں صرف اسی قدر کافی نہیں ہے کہ وہ ثقہ ہے یا نہیں ؟ بلکہ اس کی بھی ضرورت ہے کہ اس نے فی الواقع نمبر (۱) سے خبر بھیجنے کی استدعا بھی کی ہے یا نہیں ؟ کیونکہ کبھی ایسا بھی وقوع میں آتا ہے کہ نمبر (۳) نے فی الواقع خبر نہیں بھجوائی ہے، بلکہ اس کے نام سے کسی دغا باز نے جھوٹی خبر بھجوا دی ہے، جس کی اس کو خبر نہیں ۔ اس جواب میں جو جو باتیں لکھی گئی ہیں ، ہر چند ایسی صاف اور واضح ہیں ، جن کے لیے کسی کتاب کے حوالے کی ضرورت نہیں ہے، تاہم ایک عبارت کتاب ’’نزہۃ النظر شرح نخبۃ الفکر‘‘ سے نقل کر دی جاتی ہے۔ وھي ہذہ: ’’وفیھا، أي الآحاد، المقبول، وھو ما یجب بہ العمل عند الجمھور، وفیھا المردود، وھو الذي لم یرجح صدق المخبر بہ، لثبوت الاستدلال بھا علیٰ البحث عن أحوال رواتھا دون الأول، وھو المتواتر، فکلہ مقبول لإفادتہ القطع بصدق مخبرہ بخلاف غیرہ من أخبار الآحاد، لکن إنما وجب العمل بالمقبول منھا لأنہ إما أن یوجد فیھا أصل صفۃ القبول، وھو ثبوت صدق الناقل، أو أصل صفۃ الرد، وھو ثبوت کذب الناقل، أو لا، فالأول یغلب علیٰ الظن صدق الخبر لثبوت صدق ناقلہ فیؤخذ بہ، والثاني یغلب علیٰ الظن کذب الخبر لثبوت کذب ناقلہ فیطرح، والثالث إن وجدت قرینۃ تلحقہ بأحد القسمین التحق بہ، وإلا فیتوقف فیہ، وإذا توقف عن العمل بہ صار کالمردود، لا لثبوت صفۃ الرد، بل لکونہ لم یوجد فیہ صفۃ توجب القبول‘‘[1]انتھی و اللّٰه تعالیٰ أعلم [اخبارِ آحاد میں سے ایک مقبول ہے اور وہ جمہور کے نزدیک واجب العمل ہوتی ہے اور اس میں ایک مردود ہے، جس کے مخبر کا سچ راجح نہ ہو، کیونکہ اس سے استدلال کرنے کے لیے اس کے راویوں کے احوال کی جانچ پڑتال کرنا پڑتی ہے، برخلاف پہلی قسم کے اور یہ متواتر ہے، کیونکہ متواتر تمام کی تمام مقبول ہوتی ہیں ، اس لیے کہ اخبارِ آحاد کے برخلاف وہ اپنے مخبر کی سچائی کے قطعی علم کا فائدہ دیتی ہے۔ البتہ اخبارِ آحاد میں سے جو مقبول ہے، اس پر عمل کرنا واجب ہے، کیونکہ یا تو اس میں اصل صفتِ قبول
[1] نزھۃ النظر لابن حجر (ص: ۲۰۱)