کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 374
یہاں سے خوب واضح ہوگیا کہ قسمِ اول کے اشخاص سستی نہیں چھوٹے، بلکہ ان کے حسبِ حال سختی کی گئی، جس کو قیاس مقتضی تھا، بخلاف قسمِ اول کے اشخاص کے کہ ان پر متعدد طرح سے آسانیاں کی گئیں ، جو ان کے حق میں بھی قیاس کا مقتضیٰ تھا۔ الحاصل ہر ایک قسم کے ساتھ وہی کیا گیا، جو اُس قسم کے لائق اور مناسب تھا۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه غازی پوری (۴؍ ذی قعدہ ۱۳۲۹ھ) اگر غروبِ آفتاب کے بعد افطار سے پہلے حیض آ جائے؟ سوال: ہندہ نے رمضان کا روزہ رکھا، آفتاب غروب ہوگیا، مگر ہنوز افطار نہیں کیا ہے، کرنے کا ارادہ کیے ہوئے ہے کہ اتنے میں حیض آگیا، اس کو روزہ قضا کرنا پڑے گا یا نہیں ؟ جواب: اس صورت میں ہندہ کا روزہ پورا ہوگیا، کیونکہ روزے کی تعریف اس پر صادق آگئی، لہٰذا ہندہ کو اس روزے کی قضا کرنا نہیں پڑے گا۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ صیامِ رمضان کی قضا اور وجوبِ کفارہ: سوال: زید سے دس روزے ماہِ رمضان کے چھوٹ گئے اور اب دوسرا رمضان شریف بھی آپہنچا، کل بارہ یا تیرہ روز اور باقی رہ گئے ہیں تو اب اس صورت میں زید کو کیا کرنا چاہیے؟ جواب: اگر زید سے رمضان کے روزے عذرِ مرض یا سفر کی وجہ سے چھوٹ گئے ہیں تو ان کے عوض دس روزے دوسرے دنوں میں رکھ لے۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے:﴿مَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ﴾ [البقرۃ: ۱۸۵] یعنی جو شخص تم لوگوں میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو گنتی پوری کرے دوسرے دنوں سے۔ اگر کھانے یا پینے سے قصداً روزہ توڑا ہے تو اس نے بڑا گناہ کا کام کیا ہے، اپنے اس گناہ پر نادم ہو کر الله تعالیٰ کی درگاہ میں توبہ کرے۔ اپنی مغفرت چاہے اور قصداً کھا پی کر روزہ توڑنے والے پر بعض ائمہ کے نزدیک کفارہ دینا لازم ہے اور بعض کے نزدیک نہیں ۔ جامع ترمذی (ص: ۹۵ مطبوعہ دہلی) میں ہے: ’’وأما من أفطر متعمداً من أکل وشرب، فإن أھل العلم قد اختلفوا في ذلک، فقال بعضھم: علیہ القضاء، والکفارۃ، وشبھوا الأکل والشرب بالجماع، وھو قول سفیان الثوري وابن المبارک وإسحاق، وقال بعضھم: علیہ القضاء، ولا کفارۃ علیہ، لأنہ إنما ذکر عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم الکفارۃ في الجماع، ولم یذکر في الأکل والشرب، وقالوا: لا یشبہ الأکل والشرب الجماع، وھو قول الشافعي وأحمد‘‘[1] [جس شخص نے کچھ کھا پی کر عمداً روزہ توڑ دیا تو اس کے بارے میں اہلِ علم کا اختلاف ہے، بعض نے کہا
[1] سنن الترمذي (۳/ ۱۰۲)