کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 371
دوسری قسم کے مریض و مسافر روزہ رکھیں تو یہ ان کے لیے بہتر ہے اور روزہ افطار کریں تو بھی جائز ہے، مگر اس صورت میں ان کو فی روزہ ایک مسکین کو کھانا دینا واجب ہے۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه الغازیفوري (۱۳؍ شعبان ۱۳۲۹ھ) ایک تعاقب کا جواب: ۸؍ شعبان سنہ رواں کے ’’اہلِ حدیث‘‘ میں سوال شائع ہوا تھا کہ آیتِ کریمہ﴿وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ﴾ کے مطابق روزے کا رکھنا فرض نہیں معلوم ہوتا، بلکہ بحکم﴿اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ﴾ افضل ہے۔ اس عاجز نے سوال ہذا کا ایک جواب لکھا تھا، جو ۲۹؍ شعبان سنہ رواں کے ’’اہلِ حدیث‘‘ میں شائع ہوا تھا، جس میں سورت بقرہ رکوع (۲۳) کی متعدد آیات سے فرضیت روزہ رمضان کی ثابت کی تھی۔ پھر اثباتِ فرضیت کے بعد یہ لکھا تھا کہ جس طرح کبھی کبھی بعض قوانین سے بعض لوگ مستثنیٰ کر دیے جاتے ہیں ، اسی طرح اس قانون فرضیتِ صومِ رمضان سے بھی بعض لوگ مستثنیٰ کر دیے گئے ہیں اور وہ مستثنیٰ مریض اور مسافر ہیں ، پھر مریض اور مسافر جو مستثنیٰ کیے گئے ہیں ، ان کی دو قسمیں ہیں ، ایک وہ مریض اور مسافر جو روزہ رکھ سکتے ہیں ، مگر فی الجملہ مشقت کے ساتھ۔ اول قسم کی نسبت فرمایا:﴿فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ﴾ یعنی اس قسم کے مریض اور مسافر روزہ افطار ہی کر ڈالیں اور جب صحیح اور مقیم ہوجائیں تو صحت اور اقامت کے ایام میں اتنے روزے گن کر رکھ لیں اور اسی قسم کے مریض اور مسافر کی نسبت حدیثِ صحیح میں وارد ہوا: (( لیس من البر الصوم في السفر )) [1]رواہ الشیخان عن جابر مرفوعاً۔ [سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے] و رویٰ ابن ماجہ عن عبد الرحمن بن عوف مرفوعاً: (( صائم رمضان في السفر کالمفطر في الحضر )) [2] مشکاۃ، باب صوم المسافر۔ [سفر میں رمضان کا روزہ رکھنے والا حضر میں روزہ چھوڑنے والے کی طرح ہے] دوسری قسم کی نسبت فرمایا:﴿فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ﴾ نیز فرمایا:﴿وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ یعنی اس دوسری قسم کے مریض اور مسافر روزہ رکھیں تو یہ اُن کے لیے بہتر ہے اور روزہ افطار کریں تو یہ بھی ان کو جائز ہے، مگر اس صورت میں ان کو فی روزہ ایک مسکین کو کھانا دینا واجب ہے۔ اس کے بعد ۱۲؍ شوال سنہ رواں کے ’’اہلِ حدیث‘‘ میں جناب نواب وقار نواز جنگ مولانا وحید الزمان خان
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۸۴۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۱۱۵) [2] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۱۶۶۶) اس کی سند میں انقطاع ہے، کیوں کہ ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف نے اپنے والد عبدالرحمن بن عوف سے سماع نہیں کیا۔