کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 370
وقت تک ہے کہ رات کی کالی دھاری سے صبح کی سفید دھاری تم کو نمایاں ہوجائے، یعنی صبح صادق تم کو نمایاں ہوجائے۔ اس سے ثابت ہوا کہ صبح صادق نمایاں ہوتے ہی مذکورہ بالا تینوں کام روزے دار پر حرام ہوجاتے ہیں ۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دن شرع میں صبح صادق سے شروع ہوتا ہے۔ پھر فرمایا:﴿ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ﴾ یعنی پھر جب رات آجائے تو روزہ ختم کر دو اور رات آتی ہے سورج ڈوبنے سے تو آیت کا مطلب یہ ہوا کہ جب سورج ڈوب جائے تو روزہ ختم کر دو۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ رات شرع میں سورج ڈوبنے سے شروع ہوتی ہے اور﴿فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ﴾ تا﴿ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ﴾ سے معلوم ہوا کہ روزہ اسی کا نام ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک مذکورہ بالا تینوں کاموں کو الله تعالیٰ کا حکم سمجھ کر چھوڑ دیں ۔ اس آیت سے روزے کی حقیقت بھی معلوم ہوگئی اور شرعی دن کی تحدید بھی، جس میں روزے دار پر مذکورہ بالا تینوں کام حرام ہوجاتے ہیں کہ وہ صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک ہے۔ الحاصل ان تمام آیاتِ صوم منقولہ بالا سے نہایت وضاحت کے ساتھ ثابت ہوا کہ الله تعالیٰ نے ہر سال ہر ماہِ رمضان کے ہر دن میں صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک عورت کے پاس جانے اور کھانے اور پینے کو الله تعالیٰ کا حکم سمجھ کر چھوڑ دینا ہر مسلمان پر فرض کیا ہے۔ پھر واضح ہو کہ جس طرح کبھی کبھی بعض قوانین سے بعض لوگ مستثنیٰ کر دیے جاتے ہیں ، اسی طرح اس قانونِ فرضیتِ صوم سے بھی بعض لوگ مستثنیٰ کر دیے گئے ہیں اور وہ مستثنیٰ مریض و مسافر ہیں ۔ پھر مریض و مسافر جو مستثنیٰ کر دیے ہیں ، ان کی قسمیں ہیں ۔ ایک وہ مریض و مسافر جو روزہ رکھ ہی نہیں سکتے ہیں اور دوسرے وہ مریض و مسافر جو روزہ رکھ سکتے ہیں ، مگر فی الجملہ مشقت کے ساتھ۔ اول قسم کی نسبت فرمایا:﴿فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ﴾ یعنی اس قسم کے مریض و مسافر روزہ افطار ہی کر ڈالیں اور جب صحیح و مقیم ہوجائیں تو اپنی صحت و اقامت کے ایام میں اتنے روزے گن کر رکھیں اور اسی قسم کے مریض و مسافر کی نسبت حدیثِ صحیح میں وارد ہوا: (( لیس من البر الصوم في السفر )) [1]رواہ الشیخان عن جابر مرفوعاً۔ [سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے] و رویٰ ابن ماجہ عن عبد الرحمن بن عوف مرفوعاً: (( صائم رمضان في السفر کالمفطر في الحضر )) [2]مشکاۃ، باب صوم المسافر۔ [سفر میں رمضان کا روزہ رکھنے والا حضر میں روزہ چھوڑنے والے کی طرح ہے] دوسری قسم کی نسبت فرمایا:﴿فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ﴾ نیز فرمایا:﴿وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ﴾ یعنی اس
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۸۴۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۱۱۵) [2] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۱۶۶۶) اس کی سند میں انقطاع ہے، کیونکہ ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف نے اپنے والد عبدالرحمن بن عوف سے سماع نہیں کیا۔