کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 363
لا بعد اخراج زکاۃ الکل، وفي المجموع: لو آجر الخراجیۃ فالخراج علی المالک، ولا یحل لمؤجر أرض أخذ أجرتھا من حبھا قبل أداء زکاتہ فإن فعل لم یملک قدر الزکاۃ فیؤخذ منہ عشر ما بیدہ أو نصفہ کما لو اشتریٰ زکاویا لم تخرج زکاتہ‘‘[1] [آگاہ رہو کہ کتاب و سنت، اجماع اور معقول کے ساتھ عشر ثابت ہے۔ جہاں تک کتاب اللہ کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:﴿وَ اٰتُوْاحَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ ﴾ پس عام مفسرین کا یہی موقف ہے کہ اس سے مراد عشر ہے، یہ آیت مجمل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اس کا بیان ہے: (( مَا سَقَتِ السَّمَائُ فَفِیْہِ الْعُشْرُ، وَمَا سُقِيَ بِغَرْبٍ أَوْ دَالِیَۃٍ فَفِیْہِ نِصفُ الْعُشْرِ )) [جو زمین بارش سے سیراب ہو اس میں عشر (دسواں حصہ) ہے اور جسے ڈول یا رہٹ کے ذریعے سیراب کیا جائے اس میں نصف العشر (بیسواں حصہ) ہے] کیونکہ عشر پیداوار میں واجب ہے نہ کہ زمین میں ، لہٰذا زمین کی ملکیت اور عدمِ ملکیت برابر ہے۔ پس قرآن و حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ زکات کا تعلق اس شخص کے ساتھ ہے جس کی ملکیت میں کھیتی باڑی اُگتی ہے۔ لہٰذا جسے زمین کے فوائد (پیداوار) حاصل ہوئے اس کے ذمے زکات ہے۔ خواہ کاشت کرنے والا زمین کا مالک ہو یا اس نے زمین کرائے پر دے رکھی ہو اور عاریتاً لی ہو یا کوئی اور صورت ہو۔ درِ مختار کے مصنف نے کہا ہے: عشر زمین کرائے پر دینے والے کے ذمے ہے اور ان دونوں کے نزدیک کرائے پر لینے والے کے ذمے ہے۔ حاوی میں ہے کہ ان دونوں کا قول ہی ہم اختیار کریں گے۔ فتح القدیر کے مصنف نے لکھا ہے: بلاشبہ عشر پیداوار کے ساتھ وابستہ ہے اور وہ زمین کرائے پر لینے (اور اس میں کاشت کاری کرنے) والے کے ذمے ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے فتاوی میں ہے: جمہور، جیسے امام مالک، شافعی، اور احمد رحمہم اللہ وغیرہ ہیں ، کے نزدیک عشر اس شخص پر واجب ہے جو اپنی ملکیت میں کھیتی باڑی کرتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَ مِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ﴾ پس آیت کا پہلا حصہ تجارت کی زکات کو واضح کرتا ہے اور دوسرا حصہ اس پیداوار پر زکات کو بیان کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے نکالی ہے۔ [پس جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیداوار نکالی ہے اسی کے ذمے عشر ہے، جب وہ کاشتکاری کی غرض سے زمین کرائے پر لے] پس (زمین) کرائے پر لینے والے کے ذمے عشر ہے۔ [ان تمام علما کے نزدیک اور اسی طرح قاضی ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک] امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: زمین کرائے پر دینے والے کے ذمے عشر ہے۔ جب وہ نصف پیداوار کے عوض زمین کاشتکاری کے لیے دے۔ مالک کے حصے میں جتنی پیداوار آئے اس کے ذمے اس کا عشر
[1] تحفۃ المحتاج، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ النبات (ص: ۲۴۲)