کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 355
ایک پیسہ نہیں دیتا۔ اسی طرح ایک شخص نے دو تین سو روپیہ کسی سے قرض لیا ہے، قرض دیے کو سال گزر گیا، مگر روپیہ قرضائی نے ابھی نہیں ادا کیا، آیا اس شخص پر مقروض روپیہ کی زکوۃ بعد حولانِ حول کے فرض ہوگی یا نہیں ؟ جواب: دونوں مندرجہ سوال صورتوں میں سے پہلی صورت میں کسی گذشتہ سال کی زکاۃ دائن (مرتہن) پر اس دین کی بابت فرض نہیں ہے۔ اسی طرح دوسری صورت میں گزشتہ سال کی زکاۃ مقروض پر اس قرض کی بابت نہیں ہے، بلکہ پہلی صورت میں ہر سال مدیون (راہن) پر اور دوسری صورت میں مستقرض پر فرض ہے (بشرطیکہ راہن مذکور اور مستقرض مذکور صاحبِ نصاب ہوں اور نصاب پر حولانِ حول بھی ہوچکا ہو) امام شافعی کا بھی یہی مذہب ہے، چنانچہ خود ان کی کتاب ’’کتاب الأم ‘‘ (طبع مصر) میں یہ مصرح ہے اور استدلال میں وہی اثر حضرت عثمان کا پیش کیا ہے، جس کو امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے: ’’إن عثمان بن عفان کان یقول: ھذا شھر زکاتکم، فمن کان علیہ دین فلیؤد دینہ حتی یحصل أموالکم فتؤدون منھا الزکاۃ‘‘[1]اھ [ بلاشبہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ یہ تمھاری زکات کا مہینا ہے، لہٰذا جس کے ذمے قرض ہو، وہ اپنا قرض ادا کرے، تاکہ تمھارے اصل مال باقی رہ جائیں تو تم ان کی زکات ادا کرو] کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر مدیونان ادائے زکوۃ کے وقت قبل اپنے اپنے ذمہ کے دین نہ ادا کیے رہیں گے، تو کل مال کی جو ان کے پاس موجود ہوگا، زکوۃ دینی پڑے گی، ورنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا پہلے ہی اس بات کو گوش گزار کر دینا بے فائدہ ٹھہرے گا۔ دائن یعنی مرتہن کا یہ کہنا کہ روپیہ میرے پاس موجود نہیں ہے، کس چیز کی زکوۃ دوں ؟ بہت ٹھیک ہے، اس روپیہ سے فائدہ تو اٹھائے مدیون اور زکوۃ فرض ہو دائن پر، کسی آیت یا حدیث سے اس کا ثبوت معلوم نہیں ہوتا، ہاں دائن جو زمین کا انتفاع کھاتا ہے، یہ بے شک ناجائز اور برا ہے۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۲؍ شوال ۱۳۳۵ھ) مالِ تجارت میں زکات کا مسئلہ: سوال: مالِ تجارت میں زکوۃ ہے یا نہیں ؟ صحیح مسلک سے مطلع فرمائیں ۔ (المستفتی: بہادر خان، صوبہ دار۔ صدر بازار، بریلی) جواب: صحیح مسلک اس باب میں جہاں تک میں نے تحقیق کی ہے، یہی ہے کہ مالِ تجارت میں زکوۃ ہے۔ اس وقت صرف ایک مرفوع حدیث پر اکتفا کرتا ہوں اور وہ یہ ہے: ’’عن سمرۃ بن جندب رضی اللّٰه عنہ أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کان یأمرنا أن نخرج الصدقۃ من الذي نعد للبیع‘‘[2](رواہ أبو داود)
[1] موطأ الإمام مالک (۵۹۳) [2] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۵۶۲) اس کی سند میں ’’جعفر بن سعد‘‘ اور ’’خبیب بن سلیمان‘‘ ضعیف ہیں ۔ امام ہیثمی فرماتے ہیں :⬅