کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 353
یعتدون علیھم، ولو کان إلیھم صرف أموالھم لأذن لھم في ذلک‘‘[1]اھ [زکات کا معاملہ بلاشک و شبہہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زکات وصول کرنے کے لیے عاملینِ زکات کو روانہ کرتے تھے اور جن کے ذمے زکات واجب ہوتی انھیں حکم دیتے کہ وہ ان عاملین کو زکات ادا کر دیں ، ان کو راضی کریں ، ان کی سختی برداشت کریں اور ان کی اطاعت کریں ۔ زمانہ نبوت میں یہ سننے میں نہیں آیا کہ کسی آدمی نے یا کسی بستی کے لوگوں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر از خود اپنی زکات کو تقسیم کیا ہو۔ جس شخص نے سیرتِ نبویہ اور سنتِ مطہرہ کی ادنا سی بھی معرفت حاصل کی ہے، وہ اس بات کا انکار نہیں کر سکتا۔ مزید یہ کہ جب مال دار لوگوں نے عاملین کی زیادتی کرنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شکایت لگائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو زکات ادا نہ کرنے پر دھمکی دی، ان کا نصف مال چھین لینے کی سزا سنائی اور ان مال داروں کو یہ حکم دیا کہ وہ زکات وصول کرنے والے عاملین سے اپنے مال ہرگز نہ چھپائیں ۔ اگر ان مال داروں کو اپنی زکات خود تقسیم کرنے اور صَرف کرنے کا حق ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ضرور اجازت دے دیتے] نیز ’’السیل الجرار‘‘ میں ہے: ’’وھذا الحدیث أوضح دلیل علی أن ولایۃ صرف الزکاۃ لیست إلی أربابھا، بل علیھم أن یدفعوھا إلی الإمام أو نائبہ، ولو کانت الولایۃ إلیھم لجاز صرفھا إلی مصارفھا بأنفسھم، ولم یتوقف قبولھا علی دفعھا إلی الإمام أو نائبہ، ولم یجز للإمام العتاب علی من لم یدفعھا إلیہ لاحتمال أنہ قسمھا بنفسہ في مصارفھا‘‘ اھ [یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ زکات کو از خود صَرف کرنے اور تقسیم کرنے کی ذمہ داری زکات دینے والوں کے سپرد نہیں ہے، بلکہ ان پر یہ لازم ہے کہ وہ امام یا اس کے نائب کو زکات جمع کروائیں ۔ اگر یہ کام ان کے سپرد ہوتا تو ان کے لیے زکات کو اس کے مصارف میں صَرف کرنا جائز ہوتا اور زکات کی قبولیت امام یا اس کے نائب کو ادا کرنے پر موقوف نہ ہوتی اور امام کے لیے اس شخص کو سزا دینا جائز نہ ہوتا، جو اسے زکات جمع نہ کروائے، کیونکہ اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ اس شخص نے از خود زکات کو اس کے مصارف میں خرچ کر دیا ہو] اور بھی مشکوۃ میں ہے: عن عمر بن الخطاب: حملت علی فرس في سبیل اللّٰه فأضاعہ الذي کان عندہ فأردت أن أشتریہ، وظننت أنہ یبیعہ برخص، فسألت النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم فقال: (( لا تشترہ ولا تعد
[1] السیل الجرار (۱/ ۲۶۰)