کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 349
جو ننگے پاؤں اور ننگے بدن تھے، انھوں نے اونی دھاری دار یا عام چادریں پہن رکھی تھیں اور وہ تلواریں حمائل کیے ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثر، بلکہ سب مضر قبیلے سے تھے۔ ان کی تنگ حالی اور بھوک دیکھ کر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کا رنگ بدل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے، پھر باہر آگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم دیا۔ انھوں نے اذان و اقامت کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کروائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا:﴿یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ.....﴾ [اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا] اور سورۃ الحشر کی آیت تلاوت کی:﴿اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ﴾ [اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے اور الله سے ڈرو] پس کسی نے دینار صدقہ کیا، کسی نے درہم، کسی نے کپڑا، کسی نے گندم کا صاع اور کسی نے ایک صاع کھجوریں صدقہ کیں ، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا صدقہ کرو۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں کہ انصار میں سے ایک آدمی ایک تھیلی اٹھاتے ہوئے آیا، قریب تھا کہ اس کا ہاتھ اسے اٹھانے سے عاجز آجائے، بلکہ عاجز ہی آگیا، پھر لوگ مسلسل آنے لگے۔۔۔ الحدیث] [1] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۱۸؍ محرم ۳۲۷اھ) کیا بنی ہاشم کو صدقہ دینا درست ہے یا نہیں ؟ سوال: بنی ہاشم یعنی سادات کو صدقہ دینا درست ہے یا نہیں ؟ اگر درست نہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ جواب: بنی ہاشم کو زکوۃ لینا جائز نہیں ہے، اس کی وجہ یہ احادیثِ صحیحہ ہیں : عن أنس قال: مر النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم بتمرۃ في الطریق، فقال: (( لو لا أني أخاف أن تکون من الصدقۃ لأکلتھا))[2] (متفق علیہ)
[1] ۱۸۳۹: عن عبد اللّٰه بن عمر رضی اللّٰه عنہ قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم: (( ما یزال الرجل یسأل الناس حتیٰ یأتي یوم القیامۃ لیس في وجھہ مزعۃ لحم )) (متفق علیہ) [صحیح البخاري، رقم الحدیث: ۱۷۴، صحیح مسلم: ۱۰۴/ ۱۰۴۰] ’’عبداﷲ بن عمررضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی لوگوں سے مانگتا رہتا ہے، حتی کہ جب وہ روزِ قیامت پیش ہوگا تو اس کے چہرے پر کوئی گوشت نہیں ہوگا۔‘‘ ۱۸۴۶: عن سمرۃ بن جندب رضی اللّٰه عنہ قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم: (( المسائل کدوح یکدح بھا الرجل وجھہ فمن شآء أبقی علی وجھہ ومن شاء ترکہ إلا أن یسأل الرجل ذا سلطان أوفي أمر لا یجد منہ بدا )) (رواہ أبو داود والترمذي والنسائي) [سنن أبيداود، رقم الحدیث: ۱۶۳۹، سنن الترمذي، رقم الحدیث: ۶۸۱، وقال حسن صحیح، سنن النسائي، رقم الحدیث: ۲۶۰۰] ’’سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوال کرنا خراش ہے، آدمی ان کی وجہ سے اپنے چہرے پر خراشیں ڈالتا ہے۔ جو چاہے انھیں اپنے چہرے پر باقی رکھے اور جو چاہے انھیں ترک کر دے، البتہ آدمی بادشاہسے سوال کرے یا کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کرے جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو پھر سوال کرنا جائز ہے۔‘‘ [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۲۹۹)