کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 347
حوالے کر دینے پر موقوف نہ ہوتی اور نہ سردار کو یہ حق ہوتا کہ جو اپنی زکات سردار کے حوالے نہ کرے، اس کو عتاب کرے، کیوں کر ہو سکتا ہے کہ جس نے اپنی زکات سردار یا ان کے نائب کو نہ دی اس نے خود زکات کے مصرفوں میں بانٹ دیا ہو اور بھی امام شوکانی رحمہ اللہ نے سیل الجرار میں فرمایا ہے۔ خلاصہ یہ کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ بات ہرگز دلائل سے ثابت نہیں کہ مالک اپنی زکات خود بانٹ دیا کرتا ہو اور اس بیان سے وہ شبہہ دور ہو گیا جو جلال الدین نے اسی بیان میں اس کی شرح میں لکھا ہے، کیونکہ ایسی کوئی دلیل نہیں ہے، جو معارضہ کے قابل ہو اور یہ بھی سیل الجرار میں ہے کہ جب یہ بات ہے کہ جب یہ بات ثابت ہوئی تو یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ جو دستور آپ کے زمانہ شریف میں تھا۔ آپ کے بعد بھی وہی دستور اماموں کے بعد بھی رہا ہے اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے جو بخاری و مسلم وغیرہما میں ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قریب ہے کہ میرے بعد خرابیاں اور ایسے ایسے کام ہوں گے، جن کو تم ناپسند کرو گے۔‘‘ لوگوں نے عرض کی: یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! اس وقت کے لیے آپ ہم لوگوں سے کیا فرماتے ہیں ، فرمایا: ’’سرداروں کا جو حق تم پر ہے اس کو ادا کیے جاؤ اور اپنا حق جو سردار پر ہے، اس کو خدا سے مانگو۔‘‘ دوسری دلیل یہ ہے، جو مسلم وغیرہ نے وائل بن حجر سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ ایک شخص آپ سے پوچھتا تھا کہ جب سردار لوگ ہمارا حق ادا نہ کریں اور اپنا حق ہم سے مانگیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ تو فرمایا: ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتے رہو، اس لیے کہ سرداروں پر جو تمھارا حق ہے، اس کی جواب دہی ان کے ذمہ ہے اور اس مسئلے میں اور بھی حدیثیں ہیں ۔ جب تم نے یہ مسئلہ جان لیا تو یہ بھی جان لو کہ امام کو کل قسم کے صدقے حوالے کر دینے واجب ہیں ، ہاں اگر سردار مالکِ مال کو بانٹنے کی اجازت دے تو اس کا خود بانٹ دینا درست ہے۔ لیکن اسے یوں مقید کرنا کہ امام کا اس ملک میں امر و نہی نافذ ہوتا ہو جس میں مال کا مالک رہتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ من جملہ اللہ کے ان اموال کے ہے جن کو ان کے مصارف میں صرف کیا جاتا ہے، وہ مصارف جن میں بلاد و عباد کی طرف سے ادا کرنا بھی شامل ہے۔ جب اس علاقے میں امام کا حکم نہ چلتا ہو توہو اس سے عاجز ہو گا۔ لیکن جب اس کی ولایت صحیح ہو اور قابلِ اعتماد مسلمانوں نے اس کی بیعت کر رکھی ہو تو اس کی اطاعت کرنا ہر اس شخص پر واجب ہو گی جسے اس کی دعوت پہنچی ہو۔ من جملہ اطاعت کے اس کی نصرت و تایید کرنا بھی ہے اور اس میں اس چیز کا اس طرف لوٹانا بھی شامل ہے جس کا اس نے حکم دیا ہے، اس امام پر لازم ہے کہ وہ اس علاقے کے لوگوں کی حمایت پر قائم ہو اور ان کے دشمنوں کو مقدور بھر ان سے دور کرے، پھر وہ اس بات میں عاجز شمار نہ ہو گا کہ وہ اس علاقے کے اغنیا سے زکات وصول