کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 344
اسی میں عبادہ بن صامت سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو زکات والوں کے پاس بھیجا اور ولید بن عقبہ کو بنی مصطلق کے پاس زکات تحصیل نے کے لیے بھیجا اور بیہقی نے امام شافعی سے روایت کی ہے کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما تحصیلدار کو زکات کے تحصیل نے کے لیے بھیجا کرتے تھے، اس کو شافعی نے ابراہیم بن سعد سے انھوں نے زہری سے روایت کی ہے اور اس قدر زیادہ کہا ہے کہ اس کی تحصیل میں کسی سال دیر نہیں کرتے تھے اور شافعی نے قدیم قول میں کہا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے عام الرماد میں زکات کے لیے تحصیلدار بھیجنا اٹھا رکھا تو پھر دوسرے سال تحصیلدار بھیج کر دونوں سال کی زکات وصول کرائی اور ابن سعد کی طبقات میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ تحصیل نے والے کو عرب کی طرف ہجرت کے نویں سال محرم کے شروع مہینے میں بھیجا اور یہ امام واقدی کے مغازی میں ان کی اسناد سے مفصل مذکور ہے] امام شوکانی ’’السیل الجرار‘‘ (۲/ ۷۰) میں لکھتے ہیں : ’’إن أمر الزکاۃ قد کان إلی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم بلا شک ولا شبھۃ، وکان یبعث السعاۃ لقبضھا، ویأمر من علیھم الزکاۃ بدفعھا إلیھم، وإرضائھم واحتمال معرتھم وطاعتھم، ولم یسمع في أیام النبوۃ أن رجلا أو أھل قریۃ صرفوا زکاتھم بغیر إذن من رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ، وھذا أمر لا یجحدہ من لہ معرفۃ بالسیرۃ النبویۃ وبالسنۃ المطھرۃ، وقد انضم إلی ذلک التوعد علی الترک والمعاقبۃ بأخذ شطر المال وعدم الإذن لأرباب الأموال بأن یکتموا بعض أموالھم من الذین یقبضون الصدقۃ منھم بعد أن ذکروا لہ أنھم یعتدون علیھم، ولو کان إلیھم صرف أموالھم لأذن لھم في ذلک، وأیضاً جعل اللّٰه سبحانہ للعامل علی الزکاۃ جزئً ا منھا في الکتاب العزیز، فالقول بأن ولایتھا إلی ربھا، یسقط مصرفا من مصارفھا، صرح بہ اللّٰه سبحانہ في کتابہ العزیز، وأما المعارضۃ لھذا الأمر الذي ھو أوضح من شمس النھار بأن خالد بن الولید حبس أدراعہ وأعتادہ في سبیل اللّٰه عز وجل، فھذا علی تقدیر أنہ حبسھا عن الزکاۃ لا یکون منہ إلا بإذن من رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ، ولھذا صار ذلک معلوما عند رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ، ومعلوم أن خالدا لا یأخذ جواز ھذا التحبیس و إجزاء ہ عن الزکاۃ إلا من رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم لأن مثل ذلک لا یعلم إلا من الشرع والإذن من رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم لرب المال بالصرف في حکم القبض للزکاۃ منہ، وأما علی تقدیر أن المراد بقولہ: إنہ حبس أدراعہ وأعتادہ في سبیل اللّٰه تعالیٰ، أن من کان ھذا فعلہ في التقرب إلی اللّٰه عزوجل بوقف أخص أملاکہ، وأحبھا إلیہ مع مزید حاجتہ إلیھا یبعد عنہ أن یمنع الزکاۃ، فلا دلالۃ لہ علی مراد القائل بالمعارضۃ، وأما ابن جمیل الذي قیل للنبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أنہ قد منع دفع