کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 34
(وفات ۱۳۳۹ھ) نے چند علما کے سامنے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ میرے کتب خانے میں منطق کی ایک بہت پرانی کتاب تھی۔ عبارت کی پیچیدگی کے ساتھ مسائلِ منطقیہ کا بیان کچھ ایسا تھا کہ کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ جناب حافظ صاحب اتفاق سے ڈیانواں تشریف لائے۔ میں نے وہ کتاب دکھا کر کہا کہ چیستاں معلوم ہوتی ہے۔ حافظ صاحب نے کتاب کے چند اوراق الٹ پلٹ کر دیکھے تو فرمایا: کوئی ایسی بات نہیں ، مسائل وہی ہیں ، عبارت ذرہ پیچیدہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی مضامین کا مطلب عام فہم الفاظ میں بیان فرما دیا۔ [1]
زیرِ نظر فتاویٰ میں سید الاتقیاء مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ (وفات ۱۳۳۱ھ) اور دیگر کئی اکابر علما کے استفسارات بھی شامل ہیں ، جو انھوں نے حضرت حافظ صاحب کی خدمت میں جواب کے لیے ارسال کیے۔ بعض مواقع پر تو آپ کو علماے کرام کے مابین اختلافی مسائل میں حَکم بنایا گیا، جیسے آرہ میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی (وفات ۱۳۳۹ھ) اور شاہ عین الحق پھلواری (وفات ۱۳۳۳ھ) کے ساتھ آپ بھی مشہور ثنائی غزنوی نزاع میں منصفین میں شامل تھے۔ نیز اس مجموعہ میں بعض مسائل پر آپ کے وہ فتاویٰ بھی مندرج ہیں ، جو بعض علما کی طرف سے نزاع کے وقت فیصلے کے لیے آپ کی خدمت میں ارسال کیے گئے، جو حضرت حافظ صاحب کے رسوخ فی العلم اور جماعتِ علما میں بلند مرتبت ہونے پر دلالت کرتے ہیں ۔ مزید برآں حضرت حافظ صاحب کے فتاویٰ میں ان کے جوابات اور ان کی دیگر کتب کو پڑھ کر یقین کامل ہوجاتا ہے کہ آپ کو جملہ علومِ دینیہ میں رسوخ و اتقان حاصل تھا اور تفسیر و حدیث اور فقہ و ادب میں تو آپ بلاشبہ درجۂ امامت پر فائز تھے۔
تراجم علماے حدیث کے نامور مصنف ابو یحییٰ امام خان نوشہروی رقم طراز ہیں :
’’جن کی ذات پر علم کو فخر اور عمل کو ناز تھا۔ تدریس جن کے دم سے زندہ تھی۔ اساتذہ جن پر اس قدر نازاں کہ حضرت شیخ الکل جناب میاں صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے: ’’میرے درس میں دو عبد الله آئے ہیں : ایک عبد الله غزنوی، دوسرے عبد الله غازی پوری۔‘‘ جناب مستطاب استاذ الاساتذہ مولانا حافظ عبد الله صاحب رحمہ اللہ کی ذات مستجمع الصفات جن مغتنمات میں سے تھی، اس کا یہ بالکل مختصر مرقع ہے کہ آپ جس زمانے میں مدرسہ ’’احمدیہ ‘‘ آرہ میں تھے، روزانہ بانکی پور تشریف لے جاتے، درسِ قرآن میں وکلا اور بیرسٹر حاضر ہونا اپنے لیے سعادت سمجھتے۔ تدریس کی ہمہ گیری کا کیا ذکر، جس درس سے مولانا محمد سعید بنارسی جیسے کامل الفن مستفیض ہوئے۔ مولانا عبدالنور صاحب (حاجی پوری مظفر پوری) جیسے ماہر نکلے۔ حضرت شاہ عین الحق جیسے صاحبِ علم و عمل نے جن سے استفادہ کیا۔ مولانا عبدالسلام مرحوم (مبارک پوری) جیسے بزرگ نے جن کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیے۔ مولانا عبدالرحمن (مبارک پوری) صاحبِ ’’تحفۃ الاحوذی‘‘
[1] تراجم علماے حدیث ہند (ص: ۴۶۰، ۴۶۱) نیز دیکھیں : ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ امرتسر (۴؍ ربیع الاول ۱۳۳۸ھ)