کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 339
کتاب، فادعھم إلی شھادۃ أن لا إلٰہ إلا اللّٰه ، وأن محمدا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ، فإن ھم أطاعوا لذلک فأعلمھم أن اللّٰه قد فرض علیھم خمس صلوات في الیوم واللیلۃ، فإن ھم أطاعوا لذلک فأعلمھم أن اللّٰه قد فرض علیھم صدقۃ تؤخذ من أغنیائھم فترد علی فقرائھم )) [1] الحدیث [ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا کہ تم اہلِ کتاب کے پاس جاتے ہو، پہلے ان کو یہ ہدایت کرو کہ وہ اس بات کا اقرار کریں کہ خدا کے سوا کوئی پوجنے کے قابل نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) الله کے رسول ہیں ، اگر وہ اس کو مان لیں تو ان کو یہ تعلیم کرنا کہ الله نے ان پر رات دن میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں ، اگر وہ اس کو بھی مان لیں تو ان کو یہ سکھانا کہ الله پاک نے ان پر زکات[2] بھی فرض کی ہے کہ ان کے مالداروں سے لی جائے اور ان کے فقیروں کو بانٹی جائے] فتح الباری (۳/ ۲۸۴ چھاپہ مصر) میں ہے: ’’قولہ: (( توخذ من أغنیائھم )) استدل بہ علی أن الإمام ھو الذي یتولیٰ قبض الزکاۃ، وصرفھا، إما بنفسہ وإما بنائبہ، فمن امتنع منھا أخذت منہ قھرا‘‘[3]انتھی [یہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے مال داروں سے لی جائے اور ان کے فقیروں کو بانٹی جائے، دلیل ہے کہ سردار ہی زکات کے لینے اور اس کے بانٹنے کا مالک ہے خود سردار ہی تحصیل کرے یا اپنے نائب کے ذریعے سے تحصیل کرائے تو جو شخص تحصیلدار کو نہ دے اس سے جبراً لی جائے گی۔ الخ] ’’التلخیص الحبیر في تخریج أحادیث الرافعي الکبیر‘‘ (ص: ۱۷۸) میں ہے: ’’حدیث أن سعد بن أبي وقاص وأبا ھریرۃ وأبا سعید الخدري سئلوا عن الصرف إلی الولاۃ الجائرین فأمروا بہ۔ رواہ سعید بن منصور عن عطاف بن خالد وأبي معاویۃ و ابن أبي شیبۃ عن بشر بن المفضل ثلاثتھم عن سھیل بن أبي صالح عن أبیہ اجتمع نفقۃ عندي فیھا صدقتي، یعني بلغت نصاب الزکوۃ، فسألت سعد بن أبي وقاص وابن عمر و أبا ھریرۃ وأبا سعید الخدري أقسمھا أو أدفعھا إلی السلطان؟
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۳۳۱) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۷۳۳) مشکاۃ المصابیح (۱/ ۳۹۹) [2] رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد زکات کو ذکر فرمایا اور ایسے ہی اﷲ پاک نے قرآن مجید میں اکثر جگہ ﴿اَقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ﴾ کے بعد ﴿وَاٰتُوْا الزَّکَاۃ﴾ فرمایا ہے، اس میں ایک نکتہ اور بھید ہے، یعنی جیسا کہ نماز فرض اکیلے اکیلے پڑھنا درست نہیں ، ویسا ہی زکاتکو اکیلے اکیلے اپنے طور پر ادا کرنا درست نہیں ، جیسا کہ نماز فرض جماعت کے ساتھ ایک امام کے پیچھے ادا کرنا چاہیے، ویسا ہی زکات کو امام کے حوالے کرنا چاہیے خود بانٹنا درست نہیں ۔ ابو الحسنات عفي عنہ [3] فتح الباري (۳/ ۳۶۰)