کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 326
’’عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰه عنہ أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم نعیٰ النجاشي في الیوم الذي مات فیہ، وخرج بھم إلی المصلیٰ فصف بھم، وکبر علیہ أربع تکبیرات‘‘[1]و اللّٰه أعلم بالصواب۔ [ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کے فوت ہونے کی خبر اس روز سنائی، جس روز وہ فوت ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لے کر عید گاہ تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی صفیں بنائیں اور چار تکبیریں کہیں ] کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ ابو الفیاض محمد عبد القادر اعظم گڑھی مؤی۔ (مہر مدرسہ) عصر کے بعد اور مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنا: سوال: 1۔جنازہ کی نماز بعد نمازِ عصر پڑھی جا سکتی ہے یا نہیں ؟ 2۔ مسجد میں اندر جنازہ لے جانا جائز ہے یا نہیں ؟ جواب:1۔ جنازہ کی نماز بعد نمازِ عصر پڑھی جا سکتی ہے۔ حدیثیں جو نمازِ عصر کے بعد دوسری نمازوں کی کراہت پر دلالت کرتی ہیں ، وہ مخصوص منہ البعض ہیں اور حکمِ کراہت خاص ہے ان نمازوں کے ساتھ جو بلا سبب پڑھی جائیں ۔ خود رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے سنتِ ظہر کی قضا بعد نمازِ عصر پڑھی ہے۔ عن أم سلمۃ قالت: سمعت النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ینھیٰ عنھما ۔۔۔ إلی آخر قولہ: (( یا بنت أبي أمیۃ سألت عن الرکعتین بعد العصر، فإنہ أتاني ناس من بني عبد القیس فشغلوني عن الرکعتین اللتین بعد الظھر فھما ھاتان )) [2] (متفق علیہ) [ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان (عصر کے بعد کی دو رکعتوں ) سے منع فرماتے تھے ۔۔۔ اے دخترِ بنی امیہ! تونے عصر کے بعد کی ان دو رکعتوں کے متعلق پوچھا ہے تو بات یہ ہے کہ میرے پاس قبیلۂ عبد القیس کے کچھ لوگ آئے اور انھوں نے مجھے ظہر کے بعد کی رکعتوں سے مشغول کر دیا۔ تو یہ وہی دو رکعتیں ہیں ] اس کے سوا جن حدیثوں میں نمازِ عصر کے بعد نماز سے منع کیا گیا ہے، انھیں میں نمازِ صبح کے بعد نماز سے بھی منع کیا گیا ہے۔ حجۃ الوداع میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم مسجدِ خیف میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے اور دو شخص بیٹھے ہوئے تھے۔ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم لوگوں نے نماز کیوں نہیں پڑھی؟ انھوں نے عرض کیا کہ ہم پڑھ چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کیا کرو۔ اگر تم نماز پڑھ چکے ہو اور ایسی مسجد میں پہنچو، جہاں جماعت ہوتی ہو تو پھر جماعت میں شریک ہوجایا کرو، یہ نفل ہوجائے گی۔
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۶۸) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۹۵۱) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۱۷۶) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۳۴)