کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 316
بہا کر قرب الٰہی حاصل کرنا] قرار دیا جائے، جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے، تو اس پر یہ شبہہ وارد ہوتا ہے کہ اس تقریر پر لازم ہوگا کہ ہر دم متقرب بہ میں احکامِ اضحیہ معتبر ہوں ، حالانکہ ذبیحۃ العرس اور دیگر دماے ولائم میں کوئی بھی نہیں کہتا کہ احکامِ اضحیہ کا اعتبار لازم ہے۔ الحاصل احتیاط اسی میں ہے کہ ماثور عن الشارع پر اقتصار کیا جائے اور بلا ضرورت اس میں رائے اور قیاس کو دخل نہ دیا جائے۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۹؍ ربیع الأول ۱۳۳۲ھ) سوال: عقیقہ میں گائے و شتر ذبح کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ بقول جمہور جائز ہے تو ایک گائے اور ایک شتر سات عقیقہ کے لیے کافی ہے یا نہیں ؟ بحوالہ کتاب و سنت تحریر فرما دیں ۔ جواب: مسئلہ اولیٰ ’’عقیقہ میں گائے و شتر ذبح کرنا جائز ہے یا نہیں ؟‘‘ کے متعلق کوئی آیت یا حدیثِ صحیح میری نظر سے نہیں گزری ہے۔ ہاں انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث: (( یعق عنہ من الإبل والبقر والغنم )) [اس (بچے) کی طرف سے اونٹ، گائے اور بکری کے ساتھ عقیقہ کیا جائے] جس سے عقیقہ میں گائے و شتر ذبح کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے، حافظ ابو القاسم طبرانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’معجم صغیر‘‘ (ص: ۴۵ مطبوعہ دہلی ) میں موجود ہے، مگر حدیث مذکور بوجوہِ ذیل صحیح نہیں ہے۔ حدیث مذکور کی پوری اسناد، جو معجم صغیر میں مذکور ہے، یہ ہے: ’’ثنا إبراھیم بن أحمد بن مروان الواسطي ثنا عبد الملک بن معروف الخیاط الواسطي ثنا مسعدۃ بن الیسع عن حریث بن السائب عن الحسن عن أنس بن مالک رضی اللّٰه عنہ ‘‘ [ہمیں ابراہیم بن احمد بن مروان الواسطی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں عبد الملک بن معروف الخیاط الواسطی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں مسعدہ بن الیسع نے بیان کیا، انھوں نے حریث بن السائب سے روایت کیا، انھوں نے حسن سے روایت کیا اور انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے] حدیث مذکور کے عدمِ صحت کی وجہ اول: اس حدیث کی اسناد میں راوی ’’ابراہیم بن مروان واسطی‘‘ ہیں ، ان کی نسبت ’’میزان الاعتدال‘‘ میں ہے: ’’رویٰ الحاکم عن الدارقطني قال: لیس بالقوي‘‘[1]یعنی حاکم نے دارقطنی سے روایت کی ہے کہ یہ راوی قوی نہیں ہے اور صحتِ حدیث کے لیے اس کے کل راویوں کا قوی (عادل و ضابط) ہونا ضروری ہے، پس جب اس حدیث کا راوی قوی نہیں تو یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ وجہ دوم: اس حدیث کی اسناد میں راوی ’’مسعدۃ بن الیسع‘‘ ہیں ، ان کی نسبت میزان الاعتدال میں ہے: ’’ھالک، کذبہ أبو داود، وقال أحمد بن حنبل: خرقنا حدیثہ منذ دھر‘‘[2] یعنی راوی نمبر ۳ ہالک ہے، اس کو ابو داود نے جھوٹا کہا ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا ہے: ہم نے تو اس کی حدیث کو مدت ہوئی پھاڑ ڈالا
[1] میزان الاعتدال (۱/ ۱۷) سؤالات الحاکم للدارقطني (ص: ۱۰۱) [2] میزان الإعتدال (۴/ ۹۸)