کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 313
کیا اور سر منڈوایا] مسور بن مخرمہ وغیرہ کی حدیث میں ہے: ’’فلما فرغ من قضیۃ الکتاب قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( قوموا فانحروا، ثم احلقو )) ۔۔۔ إلی قولہ: فلما رأوا ذلک قاموا فنحروا‘‘[1] [جب عہد نامہ کی تحریر سے فراغت ہوئی تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے صحابہ سے) فرمایا: ’’اٹھو! قربانیاں کرو اور پھر اپنے سر مونڈ لو‘‘ ۔۔۔ جب انھوں نے یہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا جانور نحر کرتے ہوئے) دیکھا تو وہ اٹھے اور انھوں نے قربانیاں کیں ] اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر عمرے میں کوئی شخص بارادہ قربانی جانور خرید کرے اور حرم تک، جو اس کے ذبح کی جگہ شرعاً مقرر ہے، لے جانے سے روکا جائے تو اس کو جہاں روکا گیا ہے ذبح کر دینا چاہیے اور اس کے حق میں حرم کی تخصیص ساقط ہے، تو جس طرح ہدیِ عمرہ کے ذبح کی ایک خاص جگہ حرم مقرر ہے، اسی طرح ذبحِ اضحیہ کا ایک خاص وقت (بقر عید کا دن یا اس کے بعد تک کئی دن) مقرر ہے۔ فرق دونوں میں سے صرف جگہ اور وقت کا ہے تو جس طرح ہدی میں مجبوری کی حالت میں جگہ کی قید ساقط ہوجاتی ہے، اسی طرح اضحیہ میں بھی مجبوری کی حالت میں قیاساً علیہ وقت کی قید ساقط ہوسکتی ہے۔ اگر اس مسئلے کو نماز کے مسئلے پر قیاس کریں تو اس سے بھی وہی ثابت ہوگا، جو مسئلہ ہدیِ عمرہ پر قیاس کرنے سے ثابت ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو اثناے سال میں اس جانور کی قربانی کرنی چاہیے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ نمازِ پنجگانہ کے اوقات مقرر ہیں اور یہ بات سب لوگ جانتے ہیں ۔ سورت نساء (رکوع: ۱۵) میں ہے: ﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا﴾ [النساء: ۱۰۳] [بے شک نماز ایمان والوں پر ہمیشہ سے ایسا فرض ہے جس کا وقت مقرر کیا ہوا ہے] حالانکہ احزاب کی لڑائی ہی میں مجبوری سے ظہر، عصر، مغرب کی نمازیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم نہیں پڑھ سکے۔ جب لڑائی سے فارغ ہوئے، تب عشا کے وقت چاروں نمازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے اکٹھی پڑھیں تو جس طرح نمازوں کا وقت شرع میں مقرر ہے، اسی طرح اضحیہ کا وقت بھی شرع میں مقرر ہے اور جس طرح مجبوری کی حالت میں نمازوں میں وقت کی قید ساقط ہوگئی، اسی طرح مجبوری کی حالت میں اضحیہ میں بھی قیاساً علیہ وقت کی قید ساقط ہوسکتی ہے۔ یعنی اگر بوجہ مجبوری وقتِ مقرر پر قربانی نہ ہوسکے تو جب مجبوری رفع ہوجائے، اس وقت قربانی کرے اور اس قربانی کو باصطلاحِ فقہا قضا کہیں گے، کیونکہ ادا و قضا میں باصطلاحِ فقہا یہی فرق ہے کہ جس کام کا جو وقت شرعاً مقرر ہے، اگر اس کو اس کے وقت پر کیا تو اس کا نام ادا ہے اور وقت مقرر کے گزر جانے پر کیا تو قضا ہے۔ واضح رہے کہ ان دونوں قیاسوں سے صرف اسی شخص کے حق میں وقت کی قید کا سقوط ثابت
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۵۸۱)