کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 298
اسی طرح عبدالرزاق و ابن ابی شیبہ نے اپنے اپنے مصنف میں اور امام شافعی نے اپنی مسند میں روایت کی ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بھی عورتوں کی امامت کرتی تھیں ۔[1] وأخرج أبو داود في سننہ عن الولید بن جمیع عن عبد الرحمن بن خلاد عن أم ورقۃ أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یزورھا في بیتھا، وجعل لھا مؤذنا یؤذن لھا، وأمرھا أن تؤم أھل دارھا۔[2] و رواہ الحاکم في المستدرک، ولفظہ: أمرھا أن تؤم أھل دارھا في الفرائض،[3] وقد احتج مسلم بالولید بن جمیع، وقال المنذري في مختصرہ: الولید بن جمیع فیہ مقال، وقد احتج لہ مسلم، وقال ابن القطان في کتابہ: الولید بن جمیع و عبد الرحمن بن خلاد لا یعرف حالھما، قلت: ذکرھما ابن حبان في الثقات، وروی عبد الرزاق في مصنفہ عن ابن عباس قال: تؤم المرأۃ النساء تقوم وسطھن۔[4] [امام ابو داود رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ولید بن جمیع سے بیان کیا ہے، انھوں نے عبد الرحمن بن خلاد سے روایت کیا ہے، انھوں نے ام ورقہ سے بیان کیا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ہاں اس کے گھر میں ملنے کے لیے آیا کرتے تھے اور اس کے لیے ایک موذن مقرر کر رکھا تھا، جو اس کے لیے اذان دیتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (ام ورقہ) حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کرایا کرے۔ اور امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک میں اسے روایت کیا ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں : ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (ام ورقہ) حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی فرائض میں امامت کرایا کرے۔‘‘ امام مسلم رحمہ اللہ نے ولید بن جمیع سے حجت پکڑی ہے۔ علامہ منذری رحمہ اللہ نے اپنی مختصر میں فرمایا ہے: ولید بن جمیع پر کلام ہے، جب کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس سے احتجاج کیا ہے۔ ابن القطان رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں کہا ہے: ولید بن جمیع اور عبد الرحمن بن خلاد کا حال معلوم نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ابن حبان رحمہ اللہ نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہے۔ عبدالرزاق رحمہ اللہ
[1] پہنچ جائے تو جو شخص حیلہ ساز وابلہ فریب ہوگا، وہ بالائی کارروائی اور حیلہ و حوالہ سے کام لے گا اور دعوے کو مدلل نہ کر سکے گا اور جو ایسا نہ ہو گا، وہ دلائل پیش کرے گا۔ پس اگر فہم و تحقیق سے اختلاف پیدا ہوا ہے تو ایسے اشخاص کے پیچھے نماز ادا کرنا صحیح و درست ہے اور حیلہ ساز وابلہ فریب کے پیچھے نماز ادا کرنا ان کی حیلہ سازی پر سہارا لگا کر امداد کرنا ہے۔ قال اللّٰه تعالیٰ: ﴿تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ﴾[المائدۃ: ۲] وقال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم : (( من کثر سواد قوم فھو منھم )) واللّٰه تعالیٰ أعلم اس کی سند میں انقطاع ہے۔ دیکھیں : المطالب العالیۃ (۸/۱۳۹) العاجز: عبد الجبار عمر پوری، کان اللّٰه لہ۔ (یہ فتویٰ الگ ورق پر منقول تھا، جس پر مولانا عبدالجبار صاحب کا جواب بھی مع دستخط و مہر درج تھا، اس سے یہاں نقل کر لیا گیا)  مصنف عبد الرزاق (۳/ ۱۴۰) مصنف ابن أبي شیبۃ (۱/ ۴۳۰) نیز دیکھیں : تمام المنۃ (ص: ۱۵۳) [2] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۵۹۲) [3] المستدرک (۱/ ۳۲۰) [4] مصنف عبد الرزاق (۳/ ۱۴۰)