کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 293
پڑھنی جائز بلکہ ضروری ہے، اس لیے کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا﴾ [آل عمران، رکوع ۱۱] یعنی الله کی رَسّی (دینِ اسلام، یعنی الله کی فرمانبرداری) سب مل کر مضبوط پکڑے رہو اور الگ الگ نہ ہو۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( کونوا عباد اللّٰه إخوانا )) [1] (رواہ الشیخان عن أبي ھریرۃ، مشکوۃ، ص: ۴۱۹) یعنی تم لوگ الله کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بنے رہو۔ اس مضمون کی آیات اور احادیث بہت ہیں ۔ ہاں اگر وہ لوگ اپنے ساتھ شامل ہو کر نماز پڑھنے سے جماعتِ اہل حدیث کو روکتے تو اس صورت میں جماعتِ اہلِ حدیث کو البتہ عذر کی جگہ تھی۔ لیکن جب وہ لوگ ان کو روکتے نہیں ، بلکہ خود مسلمانوں کی جماعت بڑھانے کے لیے بلاتے ہیں تو ضرور ان کو ان کے ساتھ شامل ہو کر نماز پڑھنی چاہیے۔ و الله تعالیٰ أعلم۔ اہلِ حدیث تکبیریں جتنی اور جس جگہ کہتے ہیں ، اتنی اور اس جگہ کہیں ۔ بخاری شریف (۳/ ۳۱۱) میں ہے: باب إذا لم یتم الإمام، واتم من خلفہ۔ حدثنا الفضل بن سھل قال: حدثنا الحسن بن موسیٰ الأشیب قال: حدثنا عبد الرحمن بن عبد اللّٰه بن دینار عن زید بن أسلم عن عطاء بن یسار عن أبي ھریرۃ أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: (( یصلون لکم فإن أصابوا فلکم، وإن أخطأوا فلکم وعلیھم )) [2] [ہمیں فضل بن سہل نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں حسن بن موسیٰ اشیب نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں عبد الرحمن بن عبد الله بن دینار نے بیان کیا، وہ زید بن اسلم سے روایت کرتے ہیں ، وہ عطا بن یسار سے روایت کرتے ہیں ، وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ تمھیں نماز پڑھاتے ہیں ، پھر اگر انھوں نے ٹھیک نماز پڑھائی تو تمھیں اس (نماز) کا ثواب ملے گا اور اگر انھوں نے غلطی کی تو بھی (تمھاری نماز کا) تم کو ثواب ملے گا اور (غلطی کا وبال) ان پر ہوگا] فتح الباری (۱/ ۳۸۸ دہلی) میں ہے: ’’زاد أحمد عن الحسن بن موسیٰ بھذا السند: (( ولھم )) وکذا أخرجہ الإسماعیلي وأبو نعیم في مستخرجیھما من طرق عن الحسن بن موسیٰ، وقد أخرج ابن حبان حدیث أبي ھریرۃ من وجہ آخر، و لفظہ: (( یکون أقوام یصلون الصلاۃ، فإن أتموا فلکم ولھم )) ورویٰ أبو داود من حدیث عقبۃ بن عامر مرفوعا (( من أم الناس فأصاب
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۷۱۸) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۵۵۹) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۶۲)