کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 290
وعظ و تذکیر کا اطلاق اسی وقت صحیح ہو سکتا ہے، جبکہ وہ کلام مخاطبین کی زبان میں ہو، جس کو وہ سمجھ سکتے ہوں ، ورنہ اس کلام کو وعظ و تذکیر کہنا صحیح نہ ہوگا۔ صحیح مسلم (۱/ ۱۸۳) میں جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ’’قال: کانت للنبي صلی اللّٰه علیہ وسلم خطبتان، یجلس بینھما، یقرأ القرآن ویذکر الناس‘‘[1] [(راوی) بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے ارشاد تھے، ان دونوں کے درمیان بیٹھتے تھے (ان خطبوں میں ) قرآن پڑھتے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت تھے] حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’کان النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم یخرج یوم الفطر والأضحی إلی المصلیٰ، فأول شيء یبدأ بہ الصلاۃ، ثم ینصرف فیقوم مقابل الناس، والناس جلوس علی صفوفھم فیعظھم ویوصیھم ویأمرھم۔۔۔ الحدیث‘‘[2] (متفق علیہ) [نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ کی طرف جاتے، سب سے پہلے نمازِ عید ادا کرتے، پھر نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کی طرف منہ کر کے ان کے سامنے کھڑے ہوجاتے، جب کہ لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے ہوتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو وعظ و نصیحت اور وصیت کرتے اور ان کو حکم دیتے۔۔۔ الحدیث] جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’قال: شھدت الصلاۃ مع النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم في یوم عید فبدأ بالصلاۃ قبل الخطبۃ بغیر أذان ولا إقامۃ، فلما قضیٰ الصلاۃ، قام متکئا علیٰ بلال، فحمد اللّٰه وأثنیٰ علیہ، ووعظ الناس، وذکرھم وحثھم علی طاعتہ، ومضیٰ إلی النساء، ومعہ بلال فأمرھن بتقوی اللّٰه ووعظھن وذکرھن‘‘[3] [(راوی) بیان کرتے ہیں کہ میں نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کی نماز میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر اذان اور اقامت کے خطبے سے پہلے نمازِ عید پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری فرمائی تو بلال رضی اللہ عنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوگئے۔ الله تعالیٰ کی حمد و ثنا کی، لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے انھیں ( الله اور رسول کی) اطاعت کی تلقین فرمائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف سے ہو کر عورتوں کی طرف گئے، بلال رضی اللہ عنہ بدستور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (عورتوں ) کو الله تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم دیا اور انھیں وعظ و نصیحت فرمائی]
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۶۲) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۹۱۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۸۹) [3] سنن النسائي، رقم الحدیث (۱۵۷۵)