کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 287
’’صحرا: نام ہفت جائے ست در کوفہ، و دشت ہموار، و کشادگی فراخ بے گیاہ‘‘[1] اھ [صحرا کوفہ میں سات جگہوں کا نام ہے اور یہ ہموار زمین اور بے آب و گیاہ فراخ کشادگی کو کہتے ہیں ] نیز’’منتہیٰ الأرب‘‘ میں ہے: ’’دشت۔ بالفتح۔ بیابان‘‘[2] [دشت دال کی زبر کے ساتھ، بیاباں کو کہتے ہیں ] ’’غیاث اللغات‘‘ میں ہے: ’’بیابان بفتح از کشف، و بعضے محققین نوشتہ اندکہ بیابان بکسر اول باشد زیرا کہ در اصل بے آبان بود بمعنی بے آب شوندہ یعنی صحرائے بے آب چوں بالف ممدودہ آب در حقیقت دو الف است لفظ دیگر مرکب شود الف اول ساقط گردد چنانکہ سیماب و گلاب و الف و نون در آخر بر اے فاعلیت است‘‘ [کشف میں ہے کہ بیابان ب کی زبر کے ساتھ ہے۔ بعض محققین نے لکھا ہے کہ بیابان پہلے لفظ (بائے اول) کی زیر کے ساتھ ہے، کیونکہ یہ لفظ اصل میں ’’بے آبان‘‘ تھا، جس کا معنی ہے، بے آب ہونا، یعنی صحرائے بے آب۔ لفظ آب میں الف ممدودہ کے ساتھ در حقیقت دو الف ہیں ، جب اس کے ساتھ دوسرا لفظ مرکب ہوا تو پہلا الف ساقط ہوگیا، جیسے سیماب اور گلاب ہے۔ بیابان کے آخر میں ’’ان‘‘ فاعلیت کے لیے ہیں ] ان عبارات منقولہ کتبِ لغت سے ہویدا ہے کہ عرب کی زبان میں صحرا علاوہ ان سات جگہوں کے جو کوفہ میں ہیں ، اس جگہ کو کہتے ہیں ، جس میں پانی اور گھاس نہ ہو، یعنی صحرا کے مفہوم میں پانی اور گھاس کا نہ ہونا بھی معتبر ہے اور مصلیٰ شریف اور وہ جگہیں جن میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نمازیں پڑھی تھیں ، ان پر صحرا بمعنی مذکور کا صادق آنا مشکل ہے۔ بہر کیف کتب مذکورہ بالا سے اسی قدر ثابت ہوتا ہے کہ عیدگاہ، یعنی جہاں عید کی نماز پڑھی جائے، ایسی کشادہ جگہ ہونی چاہیے، جس میں عیدگاہ کے لیے جانے والوں کی گنجایش ہوجائے، خواہ صحرا ہو یا مسجد یا ان کے سوا اور کوئی جگہ ہو، اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا مسجد نبوی میں نمازِ عیدین پڑھنا سب سے آخر میں مصلیٰ شریف میں پڑھنا اور پھر اسی میں پڑھتے رہ جانا، اس کی وجہ ۔ و الله اعلم۔ یہی معلوم ہوتی ہے کہ مسجد نبوی میں اس وقت اتنی گنجائش نہ تھی کہ سب لوگ اس میں آسکیں اور دوسری جگہوں میں اس قدر گنجائش تھی، پھر جیسے جیسے حاضرین کی کثرت ہوتی گئی، جگہیں بدلتی گئیں ۔ سب سے آخر میں مصلیٰ کی جگہ اس لیے تجویز ہوئی کہ وہ بہت کشادہ جگہ تھی اور اسی وجہ سے پھر اس کی تبدیلی کی ضرورت نہ ہوئی۔ اس کی تائید اس سے بخوبی ہوجاتی ہے کہ مکہ معظمہ میں نمازِ عید مسجد ہی میں ہوتی آئی ہے، کبھی صحرا میں ثابت نہیں ہے تو اگر نمازِ عید کے لیے صحرا ضروری یا افضل ہوتا تو ضرور حضرت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عہد شریف میں بعد
[1] منتھی الأرب (۲/ ۲۲۴) [2] منتھیٰ الأرب (۲/ ۲۹)