کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 285
کثیر کے گھر کے سامنے تھا، یا اس کی مغربی جانب یا اس کی مشرقی جانب۔ پہلی بات زیادہ صحیح ہے، اس دلیل کی بنا پر جو آگے آئے گی، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبا جانے کا ذکر ہے اور اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ کے پاس سے گزر فرماتے تھے۔ پھر مذکورہ بالا دو گھروں کے درمیان گلی کی جگہ پر چلتے تھے۔ رہی چوتھی عیدگاہ اور اس کے بعد والی عید گاہیں تو ظاہر ہے کہ یہ وہ جگہیں ہیں ، جو لوگوں کی آج کی عید گاہ کے قریب ہیں اور بطورِ خاص چوتھی عیدگاہ، شاید یہ وہی مسجد ہے، جو عید گاہ کی شمالی جانب میں ہے، آج یہ مغرب کی جانب مائل، معروف باغیچہ عریضی کے وسط میں قبۂ عین الازرق کے ساتھ متصل ہے۔ آج کل یہ مسجد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نام سے معروف ہے۔ شاید اس لیے کہ انھوں نے اپنے دورِ خلافت میں یہاں نمازِ (عید) ادا کی تھی۔۔۔ اور اس کا قول کہ پھر وہاں پر نمازِ (عید) پڑھی، جہاں آج لوگ پڑھتے ہیں ، یعنی اس مسجد میں جو آج مسجد المصلی کے نام سے مشہور ہے۔ یہ روایت اسی مفہوم میں ہے، جس کو ابن شبہ نے ابن باکیہ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے دار الشفاء کے پاس عید کی نماز ادا کی۔ پھر حارۃ الدوس میں پڑھی۔ پھر المصلیٰ میں پڑھی، پھر اس کے بعد اسی جگہ نمازِ عید ادا کرتے رہے، یہاں تک کہ الله تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فوت کر لیا] پھر (صفحہ: ۱۸۹) میں علامہ سمہودی فرماتے ہیں کہ مطری نے کہا کہ ان مسجدوں میں سے جن کو ابن زبالہ نے نمازِ عید کے لیے ذکر کیا ہے، اب صرف تین مسجدیں مشہور ہیں : 1۔ مسجد المصلیٰ: جس میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پیچھے عید کی نماز پڑھی اور آخر تک اسی میں پڑھتے رہے۔ 2۔مسجدِ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ۔ 3۔ مسجدِ حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔ علامہ سمہودی کی عبارت یہ ہے: ’’قال المطري: ولا یعرف من المساجد التي ذکر، یعني ابن زبالۃ، لصلاۃ العید غیر المسجد الذي یصلیٰ فیہ الیوم، ومسجد شمالیہ وسط الحدیقۃ المعروفۃ بالعریضي، یعرف بمسجد أبي بکر، و مسجد کبیر شمالي الحدیقۃ متصل بھا، یسمیٰ مسجد علي‘‘[1]انتھی ملخصاً [مطری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ عید کی نماز کے لیے ابن زبالہ کی ذکر کردہ مساجدمیں سے ان مساجد کے علاوہ معروف نہیں ہیں ، جس میں آج نمازِ (عید) ادا کی جاتی ہے اور وہ شمالی مسجد جو معروف باغیچے عریضی کے وسط میں ہے، وہ مسجد ابی بکر کے نام سے معروف ہے اور ایک بڑی مسجد ہے، جو باغیچے کی شمالی جانب اس کے ساتھ متصل، جس کا نام مسجد علی ہے] بخاری شریف میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید میں اس علم کے پاس تشریف لا کر عید کی
[1] خلاصۃ الوفاء (۲/ ۲۸۶)