کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 283
محصور، کما رواہ ابن شبۃ، ویبعد أن یبتکر علي رضی اللّٰه عنہ الصلاۃ بموضع لم یصل فیہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم‘‘[1] اھ۔ [شاید یہ وہی بڑی مسجد ہے، جو مسجد علی شامی مصلی کے نام سے معروف ہے، جو مغرب کی جانب جو عریضی باغ کے نام سے مشہور ہے، کیونکہ مدینے کا بازار وہیں پر تھا۔ شاید اس مسجد کا نام ’’مسجد علی‘‘ اس وجہ سے ہے کہ اس میں علی رضی اللہ عنہ نے اس وقت لوگوں کو نمازِ عید پڑھائی، جب عثمان رضی اللہ عنہ (اپنے گھر میں ) محصور تھے، جیسا کہ ابن شبہ نے روایت کیا ہے۔ لیکن یہ بات بعید ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کسی ایسی جگہ نماز (عید) پڑھانے کا آغاز کریں ، جس جگہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہ پڑھائی ہو] ’’خلاصۃ الوفاء‘‘ (ص: ۱۸۸) میں ہے کہ ابن زبالہ نے بسند خود روایت کی ہے، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اول نماز عید حارۃ الدوس (یعنی دوس کے محلے) میں پڑھی، جو ابن ابی الجنوب کے مکان کے پاس ہے۔ پھر دوسری بار حکیم کے مکان کے فنا میں پڑھی (جس کا ذکر اوپر ہوا) پھر تیسری بار عبد الله بن دُرہ مزنی کے مکان کے پاس پڑھی، جو معاویہ اور کثیر بن صلت کے مکانوں کے درمیان میں ہے۔ چوتھی بار ان پتھروں کے پاس پڑھی، جو حناطین کے پاس ہیں ۔ علامہ سمہودی فرماتے ہیں کہ شاید یہ وہی مسجد ہے جو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مسجد کہلاتی ہے اور شاید یہ نسبت اس وجہ سے ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں اس مسجد میں نمازِ عید پڑھی تھی۔ پھر پانچویں بار محمد بن عبد الله بن کثیر بن صلت کے فرودگاہ کے اندر پڑھی۔ پھر چھٹی بار اُس جگہ پڑھی، جہاں اب لوگ پڑھتے ہیں ، جو مسجد المصلیٰ کے نام سے مشہور ہے۔ ابن شبہ نے ابن باکیہ سے روایت کی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حارۃ الدوس سے پہلے دار الشفاء کے پاس نمازِ عید پڑھی تھی اور سب سے پیچھے مصلیٰ میں پڑھی، جہاں آخر تک پڑھتے رہے۔ علامہ سمہودی کی عبارت یہ ہے: ’’ولابن زبالۃ عن إبراھیم بن [أبي] أمیۃ عن شیخ من أھل السن والثقۃ قال: إن أول عید صلاہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم صلاہ في حارۃ الدوس عند بیت ابن أبي الجنوب، ثم الثاني بفناء دار حکیم عند دار جفرۃ داخلا في البیت الذي بفنا المسجد، ثم الثالث عند دار عبد اللّٰه بن دُرۃ المزني داخلا بین الدارین دار معاویۃ و دار کثیر بن الصلت، ثم الرابع عند أحجار کانت عند الحناطین بالمصلیٰ، ثم صلیٰ داخلا في منزل محمد بن عبد اللّٰه بن کثیر بن الصلت، ثم صلیٰ حیث یصلي الناس الیوم۔ قلت: دار ابن أبي الجنوب کانت غربي وادي بطحان فالمصلیٰ الأول في ھذہ الروایۃ ھناک، وأما الثاني فقد سبق الکلام فیہ، وأما الثالث فھو بمعنی قول ابن شھاب کما لابن شبۃ أنہ صلی اللّٰه علیہ وسلم صلیٰ في موضع آل درۃ، وھم حي من مزینۃ، ومنزل مزینۃ غربي
[1] خلاصۃ الوفاء (۲/ ۲۸۲)