کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 278
علاحدہ ہو کر ایک طرف بیٹھ جائیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوجائیں ] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۸؍رمضان المبارک ۱۳۲۶ھ)۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: أبو یوسف محمد عبدالمنان الغازی فوري۔ ضد اور اختلاف کی بنا پر نئی عید گاہ بنانے کا حکم: سوال: ایک عیدگاہ بمشورہ چند مواضع اہلِ حدیث و احناف کے بنائی گئی اور احناف نے وعدہ واثق کیا کہ ہم لوگ اسی مسجد میں عیدین کی نماز ادا کریں گے۔ جب عید گاہ طیار ہوئی تو احناف نے نماز پڑھنے سے انکار کیا کہ ہم لوگوں کی نماز اہلِ حدیث کے پیچھے نہیں ہوگی تو اہلِ حدیث نے جواب دیا کہ ہمارے پیچھے نماز نہیں ہوگی تو آپ اپنے گروہ سے جس شخص کو امام قرار دیجیے، اس کے پیچھے ہم لوگ بھی نماز پڑھیں گے۔ الغرض صاحبان احناف نے انکار کیا اور اس کی ضد سے ایک عید گاہ اپنی بستی سے باہر نکل کر آدھ میل کے فاصلے پر پہلی عید گاہ سے بنانا شروع کیا، تو ایک عیدگاہ کے مقابلے میں دوسری عیدگاہ ضد سے بنانا جائز ہے یا نہیں اور جو شخص وعدہ کر کے اپنے اقرار سے لوٹ جائے تو اس کے حق میں شارع نے کیا حکم کیا ہے اور اہلِ حدیث کے پیچھے مقلدوں کی نماز ہوگی یا نہیں ؟ جواب: جو مسجد بلا عذر شرعی ضد اور نفسانیت سے طیار کرائی جائے تو ایسی مسجد کا بنانا جائز نہیں ، بلکہ مفسرین نے اس کو مسجد ضرار میں داخل کیا ہے۔ تفسیر مدارک و کشاف وغیرہ میں ہے: ’’قیل: کل مسجد بني مباھاۃ أو ریاء أو سمعۃ أو لغرض سوی ابتغاء وجہ اللّٰه فھو لاحق بمسجد الضرار‘‘ انتھی (نقلا عن فتاویٰ المولوي عبد الحی: ۱/ ۱۵۶) [1] [کہا گیا ہے کہ ہر وہ مسجد جو فخر کرنے یا ریا کاری یا سنانے یا رضاے الٰہی کے سوا کسی دوسری غرض کے لیے بنائی جائے تو وہ مسجد ضرار کے حکم میں ہے] وعدہ خلافی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علامتِ نفاق فرمایا ہے۔ مشکوۃ شریف (ص: ۱۷) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( آیۃ المنافق ثلاث: إذا حدث کذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان )) [2] [منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وہ وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اسے امانت سونپی جائے تو خیانت کرے]
[1] الکشاف للزمخشري (۲/ ۳۰۱) مدارک التنزیل للنسفي (۲/ ۲۰۴) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۵۹)