کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 271
بیان کی جائے، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا جائے اور وعظ و نصیحت کیا جائے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں کہا ہے کہ مذکورہ حدیث سے خطبۂ جمعہ میں قراء تِ قرآن اور وعظ و نصیحت کی مشروعیت پر استدلال کیا گیا ہے۔ ایک حدیث وہ ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ ہی نے جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں ، آواز بلند ہوجاتی اور غصہ شدید ہوجاتا، حتی کہ یہ کیفیت ہوجاتی، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی حملہ آور لشکر سے آگاہ کرتے ہوئے فرما رہے ہوں : ’’وہ صبح یا شام تم پر حملہ آور ہونے والا ہے۔‘‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ’’مجھے (ایسے وقت میں ) مبعوث کیا گیا ہے کہ میں اور قیامت اس طرح ہیں ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم درمیانی انگلی اور انگشتِ شہادت کو باہم ملاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ’’أما بعد‘‘ (حمد و ثنا اور صلاۃ و سلام کے بعد) سب سے بہترین کلام الله کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ بدترین امور وہ ہیں جو نئے جاری کیے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ صحیح مسلم ہی میں جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے، کہ جمعے کے دن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ یوں ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم الله تعالیٰ کے لائق اور شایانِ شان اس کی حمد و ثنا بیان کرتے، پھر فرماتے: ’’جسے الله تعالیٰ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ۔ بہترین کلام الله تعالیٰ کی کتاب ہے۔‘‘ پھر انھوں نے پہلی حدیث کی طرح حدیث کو بیان کیا ہے۔ ان میں سے ایک روایت صحیح مسلم ہی میں ہے، جو ام ہشام بنت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے سورت ق رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سن سن کر یاد کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جمعے کو جب منبر پر لوگوں سے خطاب فرماتے تو اسے پڑھا کرتے تھے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ خطبہ جمعہ میں سورت ق کی تلاوت کو اس لیے اختیار کیا گیا کہ یہ سورت موت، اس کے بعد اٹھائے جانے، مواعظِ شدیدہ اور زواجر اکیدہ پر مشتمل ہے۔ ایک حدیث وہ ہے، جسے امام ابو داود نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے، وہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کے روز لمبا وعظ نہ فرمایا کرتے تھے، بلکہ چند مختصر سے کلمات ہوا کرتے تھے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں فرمایا ہے کہ اس (حدیث) سے ثابت ہوا کہ خطبۂ جمعہ میں وعظ کرنا مشروع ہے۔ رہی فقہی کتابوں کی عبارتیں تو وہ بھی بہت زیادہ ہیں ۔ ان میں سے ایک فتاویٰ قاضی خاں کی درجِ ذیل عبارت ہے: