کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 265
[ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ الجمعہ نازل ہوئی (جس میں یہ آیت بھی تھی):﴿وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ﴾ راوی کہتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کون لوگ مراد ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سلمان رضی اللہ عنہ کے کندھے پر رکھا اور فرمایا: ’’اگر ایمان ثریا (کہکشاں ) کے پاس بھی ہوتا تو پھر بھی ان لوگوں (اہلِ فارس) کا کوئی آدمی یا کتنے لوگ اس کو ضرور پا لیتے۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ان لوگوں (اہلِ فارس) میں سے کتنے لوگ اسے ضرور پا لیتے] خامساً: امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک باب ہی اس لفظ سے منعقد فرمایا ہے: ’’باب من تکلم بالفارسیۃ والرطانۃ، وقولہ تعالیٰ﴿وَ اخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَ اَلْوَانِکُمْ﴾ وقال:﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ﴾[1] اھ۔ اس کے بعد تین حدیثیں اس باب میں ذکر کی ہیں ، جس میں مذکور ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض بعض اوقات دوسری دوسری زبانوں کے بعض بعض الفاظ استعمال فرمائے ہیں ۔[2] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری (۳/ ۱۳۳ چھاپہ دہلی) میں اس مقام کی شرح میں فرماتے ہیں : ’’أشار المصنف إلیٰ ضعف ما ورد من الأحادیث الواردۃ في کراھۃ الکلام بالفارسیۃ کحدیث: کلام أھل النار بالفارسیۃ، وکحدیث: من تکلم بالفارسیۃ زادت في خبثہ ونقصت من مروء تہ۔ أخرجہ الحاکم في مستدرکہ، وسندہ واہ، وأخرج فیہ أیضاً عن عمر رفعہ: من أحسن العربیۃ فلا یتکلمن بالفارسیۃ، فإنہ یورث النفاق۔ الحدیث، وسندہ واہ أیضاً‘‘ [فارسی زبان میں کلام کرنے کی کراہت اور ناپسندیدگی کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث کے ضعف کی طرف مصنف نے اشارہ کیا ہے، جیسے یہ حدیث: ’’جہنمیوں کا (آپس میں ) کلام فارسی زبان میں ہوگا‘‘ اور یہ حدیث: ’’جو شخص فارسی میں کلام کرے گا تو یہ (فارسی کلام) اس کی خباثت میں اضافہ اور اس کی مروء ت میں کمی واقع کر دے گی۔‘‘ اس کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں روایت کیا ہے، جبکہ اس کی سند سخت ضعیف ہے، انھوں نے اس کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ جس شخص کو اچھی عربی بولنی آتی ہو تو وہ فارسی میں کبھی کلام نہ کرے، کیونکہ یہ مورثِ نفاق ہے۔۔۔ الحدیث۔ اس کی سند بھی سخت ضعیف ہے] سادساً: حدیث مذکور کا مضمون صرف اس قدر ہے کہ جس کو اچھی عربی بولنی آتی ہو، اس کو فارسی یا اور کسی زبان
[1] صحیح البخاري (۳/ ۱۱۱۷) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۹۰۵، ۲۹۰۶، ۲۹۰۷)