کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 263
زبان میں خطبہ دینے کی قدرت رکھتا ہو] 5۔ ’’بدرو الأہلۃ‘‘ کی عبارت منقولہ استفتا سے استدلال اس امر پر کہ خطبے میں وعظ و تذکیر فارسی یا اُردو میں ممنوع ہے، صحیح نہیں ، اس لیے کہ عبارت مذکورہ میں جو ایک نہایت ہی عام دعویٰ کیا گیا ہے، اس سے قطع نظر کہ اس دعویٰ کا کیا ثبوت ہے اور ایسے عام دعوے کا احاطہ عملی کیونکر حاصل ہوا اور اس سے قطع نظر کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا منقولہ بالا فتوی اس دعوے کے عموم کا ناقض ہے، خود اسی عبارت منقولہ میں یہ بھی موجود ہے کہ ’’ہر چند دلیلے مانع از غیر ایں لسان مبین مباش‘‘ بھلا جب کوئی دلیل غیر عربی زبان میں خطبہ پڑھنے سے موجود نہ ہو تو غیر عربی زبان میں خطبہ پڑھنا ممنوع کیونکر ثابت ہوگا؟ کیونکہ ممنوعیت (یعنی حرمت یا کراہت) حکم شرعی ہے اور یہ جب حکم شرعی ہے اور اس کے حکم شرعی ہونے سے کسی طرح انکار نہیں ہوسکتا اور ہر حکم شرعی کے ثبوت کے لیے کوئی نہ کوئی دلیل شرعی ضرور ہونی چاہیے تو اس ممنوعیت کے ثبوت کے لیے بھی کوئی دلیل شرعی کیوں ضروری نہ ہوگی اور جب کوئی دلیل موجود نہ ہو تو ممنوعیت کے ثبوت کی کیا صورت ہے؟ خطبے میں وعظ و تذکیر فارسی یا اردو میں ناجائز ہونے پر حدیث مذکور سے استدلال بوجوہ صحیح نہیں ہے: اولاً: (اس امر کے تسلیم کے بعد کہ سلفی نے حدیث مذکور کو ان دو سندوں سے روایت کیا ہے) حدیث مذکور کی پہلی سند میں ایک راوی ’’عمر بن ہارون بلخی‘‘ ہے، جو ثقہ نہیں ہے۔ ائمہ حدیث نے اس پر متعدد وجوہ سے سخت جرحیں کی ہیں ۔ عبدالرحمن بن مہدی اور امام احمد بن حنبل اور نسائی نے اس کو متروک الحدیث اور یحییٰ نے کذاب خبیث اور ابو داود نے غیر ثقہ اور علی اور دارقطنی نے نہایت ضعیف اور صالح جزرہ نے کذاب اور ابو علی نیشاپوری نے متروک کہا ہے اور ابنِ حبان نے یہ کہا ہے کہ وہ ثقات سے معضلات روایت کیا کرتا ہے۔ علامہ ذہبی ’’میزان الاعتدال‘‘ (۲/ ۲۴۵) میں فرماتے ہیں : ’’قال ابن مھدي وأحمد والنسائي: متروک الحدیث، وقال یحییٰ: کذاب خبیث، وقال أبو داود: غیر ثقۃ، وقال علي والدارقطني: ضعیف جدا، وقال صالح جزرۃ: کذاب، وقال أبو علي النیسابوري: متروک، وقال ابن حبان: یروي عن الثقات المعضلات‘‘[1]اھ۔ [ابن مہدی، احمد اور نسائی رحمہم اللہ نے کہا ہے کہ وہ متروک الحدیث ہے۔ یحییٰ رحمہ اللہ نے کہا کہ وہ کذاب اور خبیث ہے۔ ابو داود رحمہ اللہ نے کہا کہ وہ غیر ثقہ ہے۔ علی اور دارقطنی رحمہما اللہ نے کہا کہ وہ بہت زیادہ ضعیف ہے۔ صالح جزرہ رحمہ اللہ نے کہا کہ وہ کذاب ہے۔ ابو علی نیسابوری رحمہ اللہ نے کہا کہ وہ متروک ہے اور ابنِ حبان رحمہ اللہ نے کہا کہ وہ ثقہ راویوں سے معضل روایات بیان کرتا ہے]
[1] اس حدیث کو امام حاکم نے ’’المستدرک‘‘ (۴/ ۸۷) میں بیان کیا ہے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں : ’’عمر بن ہارون کذبہ ابن معین، وترکہ الجماعۃ‘‘ حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’وسندہ واہ‘‘ (فتح الباري: ۶/ ۱۸۴) نیز دیکھیں : اللآلیٔ المصنوعۃ (۲/ ۲۳۸) تنزیہ الشریعۃ (۲/ ۳۵۷) الفوائد المجموعۃ (ص: ۲۲۱) السلسلۃ الضعیفۃ، رقم الحدیث (۵۲۳)