کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 262
کام کرے گا تو وہ مشروع کام کا کرنے والا شمار ہوگا۔ ہاں جب وہ اپنے خطبے کے آغاز میں الله تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے گا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے گا اور کچھ قرآنی آیات کی تلاوت کرے گا تو اس کا خطبہ مکمل اور احسن ہوگا] ’’بدور الأہلۃ‘‘ (ص: ۷۲) میں فرماتے ہیں : ’’وخطبہ مجرد موعظت است کہ بدان عباد الله را انذار کنند‘‘ اھ [خطبہ (جمعہ) تو محض وعظ و نصیحت کا نام ہے، جس کے ذریعے سے الله کے بندوں کو خبردار کیا جائے] نیز اسی صفحہ میں ہے: ’’وخطبہ نبوی مشتمل برحمد و صلاۃ مے بود وایں اشتمال استفتاح خطبہ مقصود و مقدمہ از مقدماتش باشد و مقصود بالذات وعظ و تذکیر است نہ حمد و صلاۃ۔ حاصل آنکہ روح خطبہ موعظہ حسنہ است از قرآن باشد یا غیر آن‘‘ [نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ حمد و صلات پر مشتمل ہوتا تھا۔ یہ حمد و صلات مقصودِ خطبہ کا آغاز اور اس کے مقدمات میں سے ایک مقدمہ ہے۔ خطبے کا مقصود بالذات وعظ و نصیحت ہے نہ کہ حمد و صلات۔ الحاصل خطبے کی روح ایک اچھا اور عمدہ وعظ ہے، خواہ وہ قرآن سے ہو یا غیرِ قرآن سے] ’’النہج المقبول من شرائع الرسول‘‘ (ص: ۲۸) میں ہے: ’’خطبہ مجرد و عظ است‘‘ اھ [خطبہ تو صرف وعظ کا نام ہے] ’’عرف الجادي من جنان ہدي الہادي‘‘ (ص: ۴۳) میں ہے: ’’ومعظم مقصودِ خطبہ وعظ است بہ ترغیب و ترہیب‘‘ [خطبے کا سب سے بڑا مقصود ترغیب و ترہیب کے ساتھ وعظ و نصیحت ہے] 3۔ خطبہ میں وعظ و تذکیر فارسی یا اردو زبان میں شرعاً جائز ہے اور اردو یا فارسی کی کچھ خصوصیت نہیں ، ہر زبان میں ، جس میں سامعین سمجھ سکیں ، جائز ہے، کیونکہ جب خطبے سے اصلی مقصود اور خطبے کی روح صرف وعظ و تذکیر ہے کہ سوال نمبر1 کے جواب سے معلوم ہوچکا ہے اور ظاہر ہے کہ کسی کلام پر وعظ و تذکیر کا اطلاق اسی وقت صحیح ہوسکتا ہے، جبکہ وہ کلام اسی زبان میں ہو، جس کو سامعین سمجھ سکیں اور اگر وہ کلام غیر زبان میں ہو، جس کو سامعین نہ سمجھ سکیں تو اس پر وعظ و تذکیر کے معنی ہرگز ہرگز صادق نہ آئیں گے اور اس صورت میں وہ چیز جو روحِ خطبہ ہے، بالضرور فوت ہوجائے گی اور وہ خطبہ مثل قالب بے جان کے ہو جائے گا، جس پر اطلاق خطبہ حقیقتاً ہرگز صحیح نہ ہو سکے گا۔ 4۔ ائمہ مجتہدین مشہورین میں سے ایک امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں ، جن کا یہ مذہب ہے کہ خطبہ عربی زبان میں شرط نہیں ہے، بلکہ باوجود قدرت کے بھی خطبہ غیر عربی زبان میں ، کوئی زبان ہو، جائز ہے۔ ’’رد المحتار‘‘ (ص: ۵۴۳) میں ہے: ’’لم یقید الخطبۃ بکونھا عربیۃ اکتفاء بما قدمہ في باب صفۃ الصلاۃ من أنھا غیر شرط، ولو مع القدرۃ علیٰ العربیۃ عندہ‘‘ اھ۔ [انھوں نے یہ قید نہیں لگائی کہ خطبہ (جمعہ) عربی زبان ہی میں ہو۔ اس پر اکتفا کرتے ہوئے جو انھوں نے ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ خطبے کا عربی میں ہونا شرط نہیں ہے، اگرچہ وہ (خطیب) عربی