کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 260
’’فیبدأ بالتعوذ سرا، ثم یحمد اللّٰه ، ثم یأتي بالشھادتین، ثم یصلي علیہ صلی اللّٰه علیہ وسلم ثم یعظ الناس‘‘ اھ۔ [پس وہ سری طور پر تعوذ پڑھنے کے ساتھ خطبے کا آغاز کرے، پھر الله تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر شہادتین پڑھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے، پھر لوگوں کو وعظ کرے] ’’برجندی شرح مختصر الوقایۃ‘‘ (۱/ ۲۰۱ چھاپہ نولکشور) میں ہے: ’’ویخطب خطبتین، یحمد في الأولیٰ، ویتشھد ویصلي علیٰ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ویعظ الناس‘‘ اھ۔ [وہ (خطیب) دو خطبے دے۔ پہلے خطبے میں الله تعالیٰ کی حمد اور کلمہ شہادت (’’أشھد أن لا إلٰہ إلا اللّٰه ، وأشھد أن محمداً رسول اللّٰه ‘‘) پڑھے، نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے اور لوگوں کو وعظ کرے] اسی صفحے میں ہے: ’’وفي شرح الطحاوي رحمه اللّٰه السنۃ في الخطبۃ أن یحمد اللّٰه ، ویثني علیہ، ویعظ الناس‘‘ اھ۔ [شرح طحاوی میں ہے: خطبے میں سنت یہ ہے کہ (خطیب) الله تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے، لوگوں کو وعظ کرے، (قرآن مجید کی) قراء ت کرے اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے] فتاویٰ قاضی خان (۱/ ۸۸ چھاپہ نولکشور) میں ہے: ’’قال بعضھم: ما دام الخطیب في حمد اللّٰه تعالیٰ والثناء علیہ والوعظ للناس فعلیھم الاستماع والإنصات‘‘ اھ۔ [ان (فقہا) میں سے بعض کا کہنا ہے کہ جب تک خطیب الله تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتا رہے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتا رہے تو لوگوں پر خاموشی کے ساتھ اسے سننا واجب ہے] فتاویٰ سراجیہ بر حاشیہ فتاویٰ قاضی خان (۳/ ۱۰۳ چھاپہ نولکشور) میں ہے: ’’لو خطب بالفارسیۃ یجوز‘‘ اھ۔ [اگر وہ (خطیب) فارسی میں خطبہ دے تو جائز ہے] ’’سفر السعادۃ‘‘ اور اس کی شرح (ص: ۲۶۷ مطبوعہ کلکتہ) میں ہے: ’’و در خطبہ قواعدِ اسلام را بیان فرمودے و مہماتِ دین را تعلیم کر دے و بذکر موت و تزہید در دنیا و ترغیب در آخرت تذکیر نمودے ‘‘ اھ [(خطیب) خطبہ (جمعہ) میں قواعدِ اسلام کو بیان کرے، دین کی اہم باتوں کی تعلیم دے اور موت کا ذکر کر کے، دنیا کی بے رغبتی پیدا کر کے اور آخرت کی ترغیب دے کر لوگوں کو نصیحت فرمائے] صفحہ (۲۶۰) میں خصائصِ جمعہ کے بیان میں ہے: ’’خاصیت سی و دویم اختصاص ایں روز است باجتماع مومناں برائے وعظ و تذکیر یعنی بطریق وجوب‘‘ اھ