کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 258
امام نووی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :
’’قال العلماء: سبب اختیار ق أنھا مشتملۃ علیٰ البعث والموت والمواعظ الشدیدۃ والزواجر الأکیدۃ‘‘[1] اھ۔
[علما رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ خطبہ جمعہ میں سورت ق کی تلاوت کو اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ یہ سورت موت، اس کے بعد اٹھائے جانے، مواعظِ شدیدہ اور زواجرِ اکیدہ پر مشتمل ہے]
مشکوۃ شریف صفحہ (۱۱۰) میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث مذکور ہے:
’’قال: کان النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم یخرج یوم الفطر والأضحیٰ إلی المصلیٰ، فأول شيء یبدأ بہ الصلاۃ، ثم ینصرف فیقوم مقابل الناس و الناس جلوس علیٰ صفوفھم فیعظھم ویوصیھم ویأمرھم‘‘[2]الحدیث (متفق علیہ)
[(راوی) بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ کی طرف نکلتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے نماز پڑھاتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کے سامنے کھڑے ہوجاتے، درآنحالیکہ لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو وعظ فرماتے، ان کو وصیت کرتے اور ان کو (نیکی وغیرہ کا) حکم دیتے]
صفحہ (۱۱۸) میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث اس طرح مذکور ہے:
’’قال: شھدت الصلاۃ مع النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم في یوم عید فبدأ بالصلاۃ قبل الخطبۃ بغیر أذان ولا إقامۃ، فلما قضی الصلاۃ، قام متکئا علیٰ بلال، فحمد اللّٰه وأثنیٰ علیہ، ووعظ الناس، وذکرھم، وحثھم علی طاعتہ، ومضیٰ إلی النساء، ومعہ بلال، فأمرھن بتقوی اللّٰه ، ووعظھن وذکرھن‘‘[3](رواہ النسائي)
[(راوی) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کے روز نمازِ عید میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر اذان اور اقامت کے خطبے سے پہلے نمازِ عید پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری فرمائی تو بلال رضی اللہ عنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوگئے۔ الله تعالیٰ کی حمد و ثنا کی۔ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے ( الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی) اطاعت کی تلقین فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف سے ہو کر عورتوں کی طرف گئے۔ بلال رضی اللہ عنہ بدستور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (عورتوں ) کو
[1] شرح صحیح مسلم (۶/ ۱۶۱)
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۹۱۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۸۹)
[3] سنن النسائي، رقم الحدیث (۱۵۷۵)