کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 257
’’استدل بہ علیٰ مشروعیۃ القراء ۃ والوعظ في الخطبۃ، وقد ذھب الشافعي إلی وجوب الوعظ وقراء ۃ آیۃ‘‘[1] اھ۔
[اس سے خطبے میں قراء تِ قرآن اور وعظ و نصیحت کی مشروعیت پر استدلال کیا گیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ تو اس بات کی طرف گئے ہیں کہ خطبے میں وعظ کرنا اور آیت کی تلاوت کرنا واجب ہے]
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ ’’أشعۃ اللمعات‘‘ میں اس حدیث کے ترجمے میں فرماتے ہیں :
’’بود مر آنحضرت را دو خطبہ کہ می نشست میان ہر دو خطبہ می خواند قرآن را در خطبہا و پند می داد مردان را ویاد می داد آخرت را و احوال آنجہان را از ثواب و عقاب‘‘ اھ
[آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے دیا کرتے تھے، ان دونوں کے درمیان بیٹھتے تھے، دونوں خطبوں میں قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے، لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے، آخرت کی یاد دلاتے تھے اور آخرت کے ثواب و عذاب کے احوال ذکر فرماتے تھے]
سنن ابی داود (۱/ ۱۵۹ مطبوعہ نولکشور) میں جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم لا یطیل الموعظۃ یوم الجمعۃ، إنما ھن کلمات یسیرات‘‘[2]
[رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز لمبا وعظ نہ فرمایا کرتے تھے، بلکہ چند مختصر سے کلمات ہوا کرتے تھے]
شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار (۳/ ۱۴۵) میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :
’’فیہ أن الوعظ في الخطبۃ مشروع‘‘[3] اھ۔
[اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ خطبۂ جمعہ میں وعظ کرنا مشروع ہے]
صحیح مسلم (۱/ ۲۸۶) میں ام ہشام بنت حارثہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
’’قالت: ما أخذت﴿ قٓ*وَالْقرآن الْمَجِیْد﴾ إلا عن لسان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ، یقرأھا کل یوم جمعۃ علیٰ المنبر إذا خطب الناس‘‘[4]
[ام ہشام رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے سورت ق رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سن سن کر یاد کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جمعے کو جب منبر پر لوگوں سے خطاب فرماتے تو اسے پڑھا کرتے تھے]
[1] نیل الأوطار (۳/ ۳۲۷)
[2] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۱۰۷)
[3] نیل الأوطار (۳/ ۳۲۷)
[4] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۷۳)