کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 256
الخطبۃ من المواعظ وغیرھا‘‘ اھ۔ [ذکر سے مراد وہ وعظ و نصیحت ہے جو خطبے میں ہوتے ہیں ] صحیح بخاری میں جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: قال: جاء رجل والنبي صلی اللّٰه علیہ وسلم یخطب الناس یوم الجمعۃ، فقال: (( أصلیت یا فلان؟ )) فقال: لا، قال: (( قم فارکع )) [1] [بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی اس وقت آیا، جب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کے دن لوگوں کو خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پوچھا: اے فلاں ! کیا تونے نماز ادا کی؟ اس نے جواب دیا: نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اٹھو اور نماز ادا کرو] فتح الباری (۱/ ۵۰۱) میں ہے: ’’وفي ھذا الحدیث من الفوائد أن للخطیب أن یأمر في خطبتہ وینھیٰ ویبین الأحکام المحتاج إلیھا‘‘ [اس حدیث میں چند فوائد ہیں : خطیب اپنے خطبے میں امر و نہی کرے اور وہ احکام بیان کرے جن کی ضرورت ہے] صحیح مسلم (۱/ ۲۸۳) میں جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’قال: کانت للنبي صلی اللّٰه علیہ وسلم خطبتان، یجلس بینھما، یقرأ القرآن ویذکر الناس‘‘[2] [بیان کرتے ہیں کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے ارشاد فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان بیٹھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھتے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے] امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : ’’فیہ دلیل للشافعي في أنہ یشترط في الخطبۃ الوعظ والقراء ۃ، قال الشافعي: لا تصح الخطبتان إلا بحمد اللّٰه تعالیٰ والصلاۃ علی رسول اللّٰه صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فیھما والوعظ‘‘[3]اھ۔ [اس میں امام شافعی رحمہ اللہ کی یہ دلیل ہے کہ خطبۂ جمعہ میں وعظ و نصیحت اور تلاوتِ قرآن کرنا شرط ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: دونوں خطبے اس وقت ہی درست ہوتے ہیں ، جب ان میں الله تعالیٰ کی حمد بیان کی جائے، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا جائے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی جائے] شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار (۳/ ۱۴۵) میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۸۸۸) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۷۵) [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۶۲) [3] شرح صحیح مسلم (۶/ ۱۵۰)