کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 254
2۔ خطبہ سے کیا مقصود ہے؟ 3۔ خطبہ میں وعظ و تذکیر فارسی یا اردو میں شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟ 4۔ ائمہ مجتہدین مشہورین میں سے کسی سے اس امر کا جواز منقول ہے یا نہیں ؟ 5۔ کتاب ’’بدور الأہلۃ‘‘ مولفہ نواب صدیق حسن خاں صاحب کے صفحہ (۷۳) میں جو یہ عبارت ’’رسم مستمر اسلام از زمن نبوت تا ایندم خواندن خطبہ است بعبارت عربی گو در بلاد عجم باش و ہر چند دلیلے مانع از غیر ایں لسان مبین مباش‘‘[1] واقع ہے، اس عبارت سے اس امر پر ’’کہ خطبہ میں وعظ و تذکیر فارسی یا اردو میں ممنوع ہے‘‘ استدلال صحیح ہے یا نہیں ؟ ذیل کی حدیث سے جو دو سندوں سے مروی ہے، امر مذکورہ پر استدلال صحیح ہے یا نہیں ؟ حدیث مذکور پہلی سند سے یہ ہے: روی السلفي من حدیث سعید بن علاء البرذعي حدثنا إسحاق بن إبراھیم البلخي حدثنا عمر بن ھارون البلخي حدثنا أسامۃ بن زید عن نافع عن ابن عمر رضی اللّٰه عنہما قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( من یحسن أن یتکلم بالعربیۃ فلا یتکلم بالعجمیۃ، فإنہ یورث النفاق )) اھ۔ [سلفی نے سعید بن علاء البردعی کی حدیث سے روایت کیا ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں اسحاق بن ابراہیم بلخی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں عمر بن ہارون بلخی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں اسامہ بن زید نے بیان کیا، انھوں نے نافع سے روایت کیا، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص عربی زبان میں اچھی گفتگو کر سکتا ہو، وہ عجمی زبان میں گفتگو نہ کرے، بلاشبہ ایسا کرنا نفاق پیدا کرتا ہے] حدیث مذکور دوسری سند سے یہ ہے: روی السلفي أیضاً بإسناد آخر معروف إلی أبي سھل محمود بن عمر العکبري حدثنا محمد بن الحسن بن محمد المقریٔ حدثنا محمد بن خلیل ببلخ حدثنا إسحاق بن إبراھیم الجریري حدثنا عمر بن ھارون عن أسامۃ بن زید عن نافع عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( من کان یحسن أن یتکلم بالعربیۃ فلا یتکلم بالفارسیۃ، فإنہ یورث النفاق )) [سلفی ہی نے ایک دوسری معروف سند کے ساتھ ابو سہل محمود بن عمر العکبری تک روایت کیا ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن حسن بن محمد المقری نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن خلیل نے بلخ میں
[1] زمانہ نبوت سے اب تک اسلامی طریقہ خطبہ عربی عبارت میں پڑھنا ہے، خواہ عجمی ملک میں ہو۔ اگرچہ عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں خطبہ جمعہ کے منع ہونے کی کوئی واضح دلیل نہیں ہے۔