کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 250
والوں کو ان کی اس بے جا مز احمت سے روکا۔ انھوں نے حسبِ اجازت خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مقدس مسجد میں اپنے طریقے کے مطابق رو بمشرق، یعنی بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی۔[1] عجیب امر ہے کہ حضرت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم تو غیر مذہب والوں کو بھی اپنی مقدس مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دیں اور اب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مسجد میں آنے اور نماز پڑھنے سے روکتا ہے اور منع کرتا ہے اور پھر دعویٰ کرتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں ؟ یہ تعصب اور نفسانیت ہے۔ الله جل شانہ سب مسلمانوں کو نیکی کی توفیق دے اور نفسانیت اور تعصب اور ضد سے بچائے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ حررہ العاجز، ابو ظفر محمد عمر، عفا عنہ۔ قد صح الجواب، و اللّٰه أعلم بالصواب۔ حررہ أبو الطیب محمد شمس الحق العظیم آبادی۔ الجواب صحیح والمجیب نجیح۔ ابو عبد اللّٰه مولا بخش خان بھازی۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ أصاب من أجاب، و اللّٰه یوفقني إلی الصواب ویھدي کل مانع إلی ترک الخراب۔ ألطاف حسین۔ عفا عنہ رب المشرقین والمغربین الفاضل پوری۔ (مہر مدرسہ) مسجد میں دوبارہ جمعہ پڑھنا: سوال: ایک مسجد کچہری میں ہے، اس مسجد کو جامعِ مسجد نہیں خیال کیا جاتا۔ اگر لوگ جمع ہوجاتے ہیں تو جمعہ ہوجاتا ہے، ورنہ نہیں ، یا جامع مسجد ہی ہے۔ اب ایسا واقعہ پیش آیا کہ حنفی لوگوں کا جمعہ پہلے ہوچکا تھا، عرصہ کے بعد دس گیارہ اہلِ حدیث آگئے، اب وہ بے قرار ہوئے کہ آج جمعہ کا روز ہے، جمعہ پڑھنا چاہیے، سو انھوں نے اسی مسجد میں خطبہ وغیرہ پڑھ کر جمعہ پڑھ لیا۔ کیا یہ درست ہے یا نہیں اور ہم لوگوں کا جمعہ ہوا ہے یا نہیں ؟ جواب قرآن و حدیث و صحابہ کے آثار سے ہو۔ اگر یہ نہ ہو تو کسی ائمہ محدثین کا استنباط ہو۔ بینوا تؤجروا۔ جواب: صورت مسؤل عنہا میں شرائط معتبرہ صحت نماز جمعہ میں سے کوئی شرط فوت نہیں ہوئی، لہٰذا نمازِ جمعہ مندرجہ سوال کی عدمِ صحت کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ ومن ادعی خلاف ذلک فعلیہ البیان۔ ہاں عمداً ایسا نہ کریں ، بلکہ ایک شہر یا ایک بستی کے تمام نمازی ایک ہی جگہ بیک جماعت نمازِ جمعہ پڑھا کریں ، کیونکہ عہدِ رسالت (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے لے کر تیسری صدی تک اسی طرح نمازِ جمعہ پڑھی جاتی تھی اور ایک ہی شہر یا ایک ہی بستی میں متعدد مقامات میں نمازِ جمعہ پڑھنے کا معمول نہ تھا۔ ’’التلخیص الحبیر‘‘ (ص: ۳۳) ملاحظہ ہو۔[2]جیسا کہ بعد کو ہوگیا اور اب تک جاری ہے۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه
[1] تفسیر أبي السعود (۲/ ۳) تفسیر المظھري (۲/ ۲) [2] التلخیص الحبیر (۲/ ۵۳)