کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 248
بے شک جس مسجد میں اِذن عام نہ ہو اور جمعہ کی نماز پڑھنے سے کسی کو روک دیا جائے، وہاں جمعہ مطابق مذہب حنفی کے درست نہیں ، جیسا کہ اور شروط مثل وقتِ ظہر اور جماعت وغیرہ کے نہ پائے جانے سے جمعہ کی نماز درست نہیں ہوگی۔ اگر کسی نے ظہر کے وقت سے پہلے یا بغیر جماعت کے جمعہ کی نماز پڑھی تو کسی طرح درست نہیں ہوگی، اسی طرح اِذن عام نہ پائے جانے سے بھی درست نہیں ۔ در مختار میں ہے: ’’ویشترط لصحۃ الجمعۃ سبعۃ أشیاء۔۔۔ السابع: الإذن العام‘‘[1] انتھی ’’جمعہ کے صحیح ہونے کے واسطے سات چیزیں شرط ہیں ، ساتویں شرط اذن عام ہے۔‘‘ ’’رد المحتار‘‘ حاشیہ در مختار میں ہے: ’’قولہ: الإذن العام أي أن یأذن للناس إذنا عاما بأن لا یمنع أحدا ممن یصح منہ الجمعۃ عن دخول الموضع الذي تصلیٰ فیہ‘‘[2]انتھی لوگوں کے واسطے عام اذن دے، بایں طور کہ کسی کو منع نہیں کرے کہ جس سے جمعہ صحیح ہو داخل ہو اس جگہ سے کہ جہاں نماز پڑھی جائے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ’’ومنھا الإذن العام، وھو أن تفتح أبواب الجامع فیؤذن للناس کافۃ، حتی أن جماعۃ لو اجتمعوا في الجامع، وأغلقوا أبواب المسجد علی أنفسھم، وجمعوا، لم یجز، وکذلک السلطان إذا أراد أن یجمع بحشمہ في دارہ، فإن فتح باب الدار، وأذن إذنا عاما، جازت صلاتہ، شھدھا العامۃ أو لم یشھدوھا، کذا في المحیط‘‘[3] ’’انھی شرطوں میں سے اذن عام ہے، وہ یہ ہے کہ جامع مسجد کے دروازے کو کھول دے اور سب لوگوں کو اذن عام دے، یہاں تک کہ اگر ایک جماعت جمع ہو جائے اور مسجد کے دروازے کو بند کر لیں اور جمعہ کی نماز پڑھیں تو نماز صحیح نہیں ہوگی، اسی طرح جب بادشاہ ارادہ کرے کہ لشکر کے ساتھ اپنے گھر میں جمعہ کی نماز پڑھے، پس اگر گھر کا دروازہ کھول دیا اور سب لوگوں کو اذن عام دیا تو نماز جائز ہوگی، لوگ حاضر ہوں یا نہ حاضر ہوں ، ایسے ہی محیط میں ہے۔‘‘ ’’شرح مواہب الرحمن لأدلۃ مذہب النعمان‘‘ میں ہے: ’’منھا الإذن العام وھو أن یفتح أبواب الجامع، ویؤذن للناس، حتی لو اجتمعوا جماعۃ في الجامع، وأغلقوا الأبواب، وجمعوا لم یجز، وکذا السلطان إذا أراد أن یصلي بحشمہ في قصرہ، فإن فتح بابہ، وأذن الناس إذنا عاما، جازت صلاتہ،
[1] الدر المختار (۲/ ۱۳۷، ۱۵۱) [2] رد المحتار (۲/ ۱۶۴) [3] فتاویٰ عالم گیری (۱/ ۱۴۸)