کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 244
کیا بیس رکعت تراویح خلفاے راشدین کی سنت ہے؟ سوال: تراویح کی نماز بیس رکعتیں پڑھنی افضل ہے یا نہیں ؟ بعض علما نے کہا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ و حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیس رکعتیں پڑھیں ، پس یہ خلفاے راشدین کی سنت ہے؟ جواب: نمازِ تراویح کی رکعات کی تعداد کہ بیس ہیں ، نہ کسی آیت یا حدیث صحیح سے بسند صحیح ثابت ہے، نہ خلفاے راشدین سے کہ ان حضرات نے بیس رکعتیں پڑھیں یا بیس رکعتوں کے پڑھنے کا حکم دیا۔ ومن ادعی فعلیہ البیان۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (شعبان ۱۳۲۹ھ) نمازِ تراویح کا حکم اور رکعات کی تعداد: سوال: 1۔نمازِ تراویح سنت موکدہ ہے یا غیر موکدہ؟ یا نفل ہے یا مستحب ہے؟ 2۔ بیس رکعتوں کی حدیثیں صحیح مرفوع آئی ہیں اور آٹھ رکعتوں کی حدیثیں صحیح مرفوع آئی ہیں ؟ بحوالہ کتب معتبرہ و نقل عبارات کے جواب سے مشرف فرمائیں ۔ بینوا تؤجروا۔ جواب: 1۔ تراویح کا لفظ کسی آیت یا حدیث میں نہیں آیا ہے۔ ہاں قیامِ رمضان کا لفظ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے۔ اس نماز (قیامِ رمضان) کو جب سے لوگوں نے جماعت کے ساتھ ایک خاص طور پر پڑھنا شروع کیا، تب سے اس کا نام تراویح رکھ دیا، جیسا کہ فتح الباری وغیرہ میں مذکور ہے۔[1] قیامِ رمضان کے بارے میں حدیث وارد ہوئی ہے: (( من قام رمضان إیماناً و احتساباً غفر لہ ما تقدم من ذنبہ )) [2] (مشکوۃ، ص: ۱۶۵) یعنی جو شخص ایماندار اور طالبِ ثواب ہو کر رمضان کا قیام کرے گا، اُس کے اگلے گناہ جو کر چکا ہے، بخش دیے جائیں گے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور ایک یہ حدیث بھی وارد ہوئی ہے: (( جعل اللّٰه صیامہ فریضۃ وقیام لیلہ تطوعا )) [3] (مشکوۃ، ص: ۱۶۵) یعنی الله تعالیٰ نے ماہِ صیام میں روزے کو فرض کیا ہے اور اس کی رات کے قیام کو تطوع بنایا ہے۔ یہ حدیث بیہقی نے روایت کی ہے، اس کی سند کا حال معلوم نہیں ہے کہ صحیح ہے یا نہیں ؟ بہرکیف اس بارے میں کہ نمازِ تراویح سنت موکدہ ہے یا غیر موکدہ؟ کوئی صریح صحیح حدیث میری نظر سے نہیں گزری ہے، لہٰذا میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا جو اوپر مذکور ہوا۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔
[1] فتح الباري (۴/ ۲۵۰) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۷) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۷۵۹) [3] صحیح ابن خزیمۃ (۲/ ۲۶۲) شعب الإیمان (۳/ ۳۰۵) اس کی سند میں ’’علي بن زید بن جدعان‘‘ ضعیف ہے۔