کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 242
محمول ہے اوپر عادتِ غالبہ آنحضرت کے۔ اس لیے کہ رات کی نماز پڑھنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف طور سے پایا گیا ہے۔ کبھی تیرہ، کبھی گیارہ، کبھی نو، کبھی سات، جیسا کہ مزاولانِ کتبِ صحاح ستہ پر مخفی نہیں ہے اور وہ جو روایت کیا ہے ابن ابی شیبہ وغیرہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعت پڑھتے تھے، سو اس کا جواب دو طرح سے دیا جاتا ہے: 1۔ اول تو یہ حدیث ضعیف ہے، چنانچہ اس امر کا اقرار ابن الہمام نے بھی ’’فتح القدیر‘‘ میں کیا ہے: ’’وأما ما روی ابن أبي شیبۃ والطبراني، وعنہ البیھقي، من حدیث ابن عباس أنہ صلی اللّٰه علیہ وسلم یصلي في رمضان عشرین رکعۃ سوی الوتر فضعیف بأبي شیبۃ إبراھیم بن عثمان جد الإمام أبي بکر بن أبي شیبۃ متفق علی ضعفہ مع مخالفتہ للصحیح‘‘[1]انتھی ما في فتح القدیر۔ [لیکن وہ روایت جس کو ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں اور امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور جو امام بیہقی کے ہاں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعت (تراویح) پڑھتے تھے تو یہ روایت امام ابوبکر بن ابی شیبہ کے دادے ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے ضعیف ہے۔ چنانچہ اس کے ضعف پر اتفاق ہے۔ نیز اس میں صحیح کی مخالفت کا عیب بھی پایا جاتا ہے] 2۔ دوسرے یہ کہ یہ روایت ہی مخالف اس حدیث کی ہے، جس کو ابن خزیمہ اور ابن حبان نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وھو ھذا: ’’عن جابر أنہ صلی اللّٰه علیہ وسلم صلّٰی بھم في رمضان ثمان رکعات والوتر‘‘[2]کذا في تخریج الھدایۃ للحافظ ابن حجر العسقلاني۔ [جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو رمضان میں آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھایا] علی ہذا القیاس بیس رکعت کا پڑھنا خلفاے اربعہ سے بھی ثابت نہیں ہوا۔ ہاں بعض روایت سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ بیس رکعت پڑھتے تھے، جیسا کہ روایت سائب بن یزید سے جو امام بیہقی نے کتاب المعرفہ میں روایت کیا ہے،[3]معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ معلوم کرنا چاہیے کہ اس سے پڑھنا بیس رکعت کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نہیں ثابت ہوتا، ہاں رضائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ثابت ہوتی ہے اور یہ روایت مخالف ہے اس کے، جو امام مالک نے موطا میں سائب بن یزید سے روایت کیا ہے کہ فرماتے ہیں سائب بن یزید کہ حکم کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب
[1] فتح القدیر (۱/ ۴۶۷) [2] صحیح ابن خزیمۃ (۲/ ۱۳۸) صحیح ابن حبان (۶/ ۱۶۹) [3] معرفۃ السنن والآثار (۴/ ۴۲)