کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 239
کیا مقتدی سے لقمہ لینا مفسدِ نماز ہے؟ سوال: مصلی کا غیر مصلی سے لقمہ لینا مفسدِ نماز ہے یا نہیں ؟ جواب: مصلی کا غیر مصلی سے لقمہ لینا مفسدِ نماز نہیں ہے، اس لیے کہ اس کے مفسدِ نماز ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے اور جو کہے کہ مفسدِ نماز ہے تو اس کا ثبوت اس کے ذمے ہے۔ جو لوگ اس کو مفسدِ نماز کہتے ہیں ، وہ اس کا ثبوت یہ پیش کرتے ہیں کہ مصلی کے غیر مصلی سے لقمہ لینا، دوسرے سے قرآن سیکھ کر پڑھنا ہے اور دوسرے سے قرآن سیکھ کر پڑھنا کلام الناس میں داخل ہے اور کلام الناس مفسدِ نماز ہے تو مصلی کا غیر مصلی سے لقمہ لینا بھی مفسدِ نماز ہوگا، اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ دلیل صحیح مان لی جائے تو امام کا اپنے مقتدی سے بھی لقمہ لینا مفسدِ نماز ہوگا، کیونکہ یہ بھی دوسرے سے قرآن سیکھ کر پڑھنا ہے، حالانکہ حسبِ قول صحیح امام کا اپنے مقتدی سے لقمہ لینا مفسدِ نماز نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ امام کا اپنے مقتدی سے لقمہ لینا اگرچہ دوسرے سے قرآن سیکھ کر پڑھنا ہے اور مقتضائے دلیل تو یہی تھا کہ یہ بھی کلام الناس اور مفسدِ نماز ہوتا، لیکن چونکہ مقتدی اپنی نماز کی اصلاح کی طرف مضطر ہے، لہٰذا اس کا یہ فعل یعنی اپنے امام کو لقمہ دینا مفسدِ نماز نہیں ہوا۔ ہدایہ (۱/ ۵۶ چھاپہ علوی) میں ہے: ’’وإن فتح علیٰ إمامہ لم یکن کلاما [فاسدا] استحسانا، لأنہ مضطر إلی إصلاح صلاتہ، فکان ھذا من أعمال صلاتہ معنی‘‘ اھ۔ [اگر وہ اپنے امام کو لقمہ دے تو استحساناً یہ کلام فاسد نہ ہوگا، کیونکہ وہ اپنی نماز کی اصلاح کرنے میں لاچار و مجبور ہے، تو یہ معنوی طور پر اس کی نماز کے اعمال میں سے شمار ہوگا] تو اس کا ایک جواب یہ ہے کہ گو مقتدی کا یہ فعل بوجہ مذکور اعمالِ نماز سے معدود ہوا، کلام الناس اور مفسدِ نماز نہ ہوا، لیکن یہاں مقتدی کے فعل میں کلام نہیں ہے، جو لقمہ دینے والا ہے، بلکہ امام کے فعل میں کلام ہے، جو لقمہ لینے والا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امام لقمہ لینے والے نے، دوسرے سے یعنی اپنے مقتدی سے قرآن سیکھ کر پڑھا، پس اگر دوسرے سے قرآن سیکھ کر پڑھنا کلام الناس میں داخل اور مفسدِ نماز ہے تو امام کا مقتدی سے بھی لقمہ لینا کلام الناس میں داخل اور مفسدِ نماز ہوگا۔ وإذ لیس فلیس۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ جس طرح مقتدی اپنی نماز کی اصلاح کی طرف مضطر ہے، اسی طرح امام، بلکہ منفرد بھی، پس جس طرح مقتدی کا فعلِ مذکور کلام الناس اور مفسدِ نماز نہیں ہوا، اسی طرح امام اور منفرد کا فعل بھی کلام الناس نہیں ہوا اور وہ اعمالِ نماز سے معدود ہونا چاہیے اور مفسد نماز نہیں ہونا چاہیے، ورنہ وجہ فرق بیان کرنا چاہیے۔ دوسرا ثبوت یہ دیتے ہیں کہ غیر مصلی کا مصلی کو لقمہ دینا اور مصلی کا غیر مصلی سے لقمہ لے لینا، یہ تعلیم و تعلم ہے اور تعلیم و تعلم دونوں میں سے ہر ایک مفسدِ نماز ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے تھے، اتنے میں نماز کا وقت آگیا۔ آپ تشریف نہیں لائے۔ بلال رضی اللہ عنہ نے بحکم