کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 232
پڑھنے والا ہو] فتح الباری (ص: ۳۸۷ مطبوعہ انصاری دہلی) میں ہے: ’’قولہ: وولد البغي أي الزانیۃ‘‘ انتھی [ان کے قول ’’ولد البغي‘‘ کا مطلب ہے زانیہ عورت کا بیٹا] نیز فتح الباری میں ہے: ’’قولہ: لقول النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( یؤمھم أقرأھم لکتاب اللّٰه )) أي فکل من اتصف بذلک جازت إمامتہ، من عبد، وصبي، وغیرھما، وھذا طرف من حدیث أبي مسعود۔۔۔ وقد أخرجہ مسلم وأصحاب السنن بلفظ: (( یؤم القوم أقرأھم لکتاب اللّٰه )) الحدیث‘‘[1] [ان کا یہ قول کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے ’’ان کی امامت وہ کروائے جو لوگوں میں زیادہ قرآن پڑھنے والا ہو۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی اس وصف کے ساتھ متصف ہوگا، اس کی امامت جائز ہے، خواہ وہ غلام ہو یا بچہ یا ان کے سوا کوئی دوسرا۔ یہ ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کا ایک ٹکڑا ہے جسے امام مسلم اور اصحابِ سنن نے یوں روایت کیا ہے کہ قوم کی امامت وہ کروائے جو لوگوں میں زیادہ قرآن پڑھنے والا ہو] وعبارۃ مسلم ھکذا: ’’حدثنا أبو بکر بن أبي شیبۃ و أبو سعید الأشج، کلاھما عن أبي خالد، قال أبوبکر: حدثنا أبو خالد الأحمر عن الأعمش عن إسماعیل بن رجاء عن أوس بن ضمعج عن أبي مسعود الأنصاري قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( یؤم القوم أقرأھم لکتاب اللّٰه ، فإن کانوا في القراء ۃ سواء، فأعلمھم بالسنۃ، فإن کانوا في السنۃ سواء، فأقدمھم ھجرۃ، فإن کانوا في الھجرۃ سواء فأقدمھم سلما، ولا یؤمن الرجل الرجلَ في سلطانہ، ولا یقعد في بیتہ علیٰ تکرمتہ إلا بإذنہ )) قال الأشج في روایتہ مکان سلما: سنا‘‘ و اللّٰه أعلم [صحیح مسلم میں اس حدیث کی عبارت اس طرح ہے: ہمیں ابوبکر بن ابی شیبہ اور ابو سعید الاشج نے بیان کیا، ان دونوں نے ابو خالد سے روایت کیا، ابوبکر نے کہا کہ ہمیں ابو خالد الاحمر نے اعمش سے روایت کیا، انھوں نے اسماعیل بن رجاء سے، انھوں نے اوس بن ضمعج سے، انھوں نے ابو مسعود انصاری سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قوم کی امامت وہ کروائے جو لوگوں میں سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والا ہو، پھر اگر وہ قرآن پڑھنے میں برابر ہوں تو وہ امامت کروائے جو لوگوں میں زیادہ سنت کا علم رکھنے والا ہو، پھر اگر وہ علمِ سنت میں برابر ہوں تو وہ جو ہجرت میں مقدم ہو، پھر اگر وہ ہجرت میں برابر ہوں تو وہ جو اسلام قبول کرنے میں مقدم ہو۔ کوئی آدمی دوسرے کی حکومت (سربراہی) کی جگہ میں امامت نہ کرائے اور نہ اس کے گھر میں اس کی خاص مسند ہی پر بیٹھے (جو اس کی عزت کی جگہ ہو) الا یہ کہ وہ اجازت دے۔ الاشج نے اپنی روایت میں ’’سلما‘‘ [اسلام] کی جگہ ’’سنا‘‘ [عمر] کا لفظ ذکر کیا ہے] کتبہ: محمود۔ عفا اللّٰه عنہ۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ)
[1] فتح الباري (۶/۱۸۶)