کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 219
2۔ بعد نمازِ عصر و بعد نمازِ صبح، قبل طلوعِ آفتاب، سجدہ تلاوت کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ جواب: 1۔سجدۂ تلاوت کے بے وضو ناجائز ہونے کی کوئی دلیل کسی آیت یا صحیح حدیث سے نہیں ہے۔ ومن ادعی فعلیہ البیان۔ 2۔ بعد نمازِ عصر اور بعد نمازِ صبح قبل طلوعِ آفتاب سجدہ تلاوت جائز ہے۔ ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا: سوال: جماعت فرض میں نماز کے بعد مناجات کے واسطے ہاتھ اٹھانا چاہیے یا نہیں ؟ جواب: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: تمھارا رب حیادار کریم ہے، جب اس کا بندہ اس کی طرف اپنے ہاتھوں کو اٹھاتا ہے، تو اس کو شرم آتی ہے کہ اس کے ہاتھوں کو خالی پھیر دے۔[1] دوسری حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے ہاتھوں کو دعا میں اٹھاتے تو بغیر منہ پر ملے، ان کو نہ چھوڑتے۔[2] ان دونوں حدیثوں سے علی العموم ہر دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہوتا ہے، خواہ بعد نماز فرض کے ہو یا کسی دوسرے وقت میں ، اور دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانے کے بارے میں بہت حدیثیں آئی ہیں ۔ صرف بخاری اور مسلم میں بہ قول نووی رحمہ اللہ تیس حدیث کے قریب موجود ہیں ۔[3]جلال الدین سیوطی کا اس بارے میں ایک مستقل رسالہ ہے اور اس میں قریب چالیس حدیث کے جمع کیا ہے۔[4] حافظ منذری نے بھی اس بارے میں ایک جزو جمع کیا ہے۔[5] الغرض دعا میں ہاتھ اُٹھانا عموماً و خصوصاً قولاً و فعلاً ہر طرح سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ پس بعد نمازِ فرض کے بھی جماعت کے ساتھ یا بغیر جماعت دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانا، ان دونوں حدیثوں سے اور نیز ان احادیث سے جو اس بارے میں وارد ہوئی ہیں ، ثابت ہوتا ہے۔ ہاں اگر کسی حدیث میں بعد نمازِ فرض دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانے کی ممانعت آئی ہو تو البتہ اس وقت ہاتھ اٹھانا، ان احادیث سے جن سے عموماً ہر دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہوتا ہے، مخصوص ہوجاتا، مگر واضح ہو کہ ممانعت میں کوئی حدیث، صحیح ہو خواہ ضعیف، مرفوع ہو خواہ موقوف، نہیں آئی ہے، بلکہ بعض روایت سے گو وہ ضعیف ہے، ہر نماز کے بعد فرض ہو یا نفل، جماعت کے ساتھ ہو یا بغیر جماعت، دعا کرنے میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہوتا ہے۔
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۴۸۸) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۵۵۶) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۸۶۵) [2] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۳۸۶) امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’حدیث في مسح الوجہ بالیدین عند الدعاء قد روي عن عمر و ابن عباس۔۔۔‘‘ پھر دونوں حدیثیں ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’ھذان حدیثان لا یصحان‘‘ (العلل المتناھیۃ: ۲/ ۸۴۰) نیز دیکھیں : ضعیف الجامع، رقم الحدیث (۴۴۱۲) [3] شرح صحیح مسلم (۶/ ۱۹۰) [4] امام سیوطی رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ’’فض الوعاء في أحادیث رفع الیدین في الدعاء‘‘ کے نام سے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے۔ [5] دیکھیں : فتح الباري (۲/ ۵۰۷)