کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 217
ہوئے تو انھوں نے سلام پھیرا پھر دو سجدے کیے اور سلام پھیرا۔ اس کے بعد فرمایا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ یہی کیا تھا] وعن المغیرۃ بن شعبۃ قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( إذا قام أحدکم من الرکعتین فلم یستتم قائماً فلیجلس، وإن استتم قائما فلا یجلس، وسجد سجدتي السھو )) [1] (رواہ أحمد و أبو داود و ابن ماجہ، منتقیٰ الأخبار) [مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی دو رکعتوں میں کھڑا ہو جائے۔ اگر تو وہ ابھی سیدھا کھڑا نہ ہوا ہو تو وہ بیٹھ جائے اور اگر وہ سیدھا کھڑا ہو چکا ہو تو پھر نہ بیٹھے، بلکہ سہو کے دو سجدے کرے] اور یہ کسی حدیث میں صاف اور صریح طور سے نہیں آیا ہے کہ اگر سیدھا کھڑا ہو کر بیٹھ جائے تو نماز فاسد ہوجائے گی یا نہیں فاسد ہوگی۔ اسی وجہ سے اس مسئلے میں علماء میں اختلاف پڑ گیا ہے۔ حنفی مذہب میں اس مسئلے میں دو قول ہیں ۔ ایک یہ ہے کہ نماز فاسد ہوجائے گی۔ دوسرا یہ کہ نہیں فاسد ہوگی۔ در مختار میں ہے: ’’فلو عاد إلی القعود بعد ذلک (أي بعد ما استقام قائما، رد المحتار، ص: ۵۴۹) تفسد صلاتہ، وصححہ الزیلعي، وقیل: لا تفسد، وھو الأشبہ کما حققہ الکمال، و ھو الحق۔ بحر‘‘[2]اھ۔ [پھر اگر وہ بیٹھ جائے، (یعنی سیدھا کھڑے ہونے کے بعد۔ رد المختار، ص: ۵۴۹) تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ زیلعی نے اس موقف کو صحیح قرار دیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی اور یہی زیادہ صحیح بات ہے، جیسا کہ علامہ کمال نے اس کی تحقیق کی ہے اور یہی حق ہے] شافعی مذہب میں اگر عمداً پھر بیٹھ جائے گا تو نماز باطل ہو جائے گی اور جمہور کے نزدیک باطل نہیں ہو گی۔ فتح الباری (۱/ ۶۳۶ چھاپہ دہلی) میں ہے: ’’من سھا عن التشھد الأول حتی قام إلی الرکعۃ، ثم ذکرہ لا یرجع، فقد سبحوا بہ صلی اللّٰه علیہ وسلم فلم یرجع، فلو تعمد المصلي الرجوع بعد تلبسہ بالرکن، بطلت صلاتہ عند الشافعي، خلافا للجمھور‘‘ اھ۔ [جو شخص پہلا تشہد بھول جائے اور (تیسری) رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے تو پھر اسے (حالتِ قیام میں ) یاد آجائے تو اب وہ نہ بیٹھے۔ ایسی حالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ’’سبحان اللّٰه ‘‘
[1] مسند أحمد (۴/ ۲۵۳) سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۰۳۶) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۱۲۰۸) [2] الدر المختار (۲/ ۸۴)