کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 214
کیونکہ جو خیر و برکت ان میں مرجو ہے، وہ دوسرے الفاظ میں مرجو نہیں ہے، ورنہ جو دعا متضمن مضمون مذکورہ بالا پڑھی جائے، کافی ہے، کیونکہ اس باب میں تخصیص کسی دعا کی بلفظ اس طرح پر کہ انھیں الفاظ سے پڑھی جائے، نہ دوسرے الفاظ سے، کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اس مضمون کی ماثور دعاؤں میں سے ایک دعا یہ ہے: عن عبد اللّٰه بن أبي أوفیٰ قال: دعا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یوم الأحزاب علیٰ المشرکین، فقال: ((اللّٰهم منزل الکتاب سریع الحساب، اللّٰهم اھزم الأحزاب، اللّٰهم اھزمھم وزلزلھم )) (متفق علیہ، مشکوۃ شریف، ص: ۲۰۵) [1] [عبد الله بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احزاب کے دن مشرکین کے خلاف دعا فرمائی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے الله ! اے کتاب نازل کرنے والے! اے جلد حساب لینے والے! اے الله ! جماعتوں کو شکست دے دے۔ اے اللہ ! انھیں شکست دے اور انھیں لڑکھڑا دے] وفي روایۃ: (( اللّٰهم منزل الکتاب ومجري السحاب، وھازم الأحزاب، اھزمھم وانصرنا علیھم )) [2] (نزل الأبرار، ص: ۳۲۴) [ایک روایت میں یہ الفاظ ہے: اے اللہ ! اے کتاب نازل کرنے والے! اے بادل کو چلانے والے! اے جماعتوں کو شکست دینے والے! ان کو شکست دے اور ان کے خلاف ہماری مدد فرما] دوسری دعا یہ ہے: (( اللّٰهم إني أسألک [النعیم یوم العیلۃ و] الأمن یوم الخوف، اللّٰهم إني عائذ بک من شر ما أعطیتنا، ومن شر ما منعتنا، اللّٰهم حبب إلینا الإیمان، وزینہ في قلوبنا، وکرہ إلینا الکفر والفسوق والعصیان، واجعلنا من الراشدین، اللّٰهم توفنا مسلمین، وألحقنا بالصالحین غیر خزایا ولا مفتونین، اللّٰهم قاتل الکفرۃ الذین یکذبون رسلک، ویصدون عن سبیلک، واجعل علیھم رجزک وعذابک، إلہ الحق آمین )) (أخرجہ النسائي، وھذا لفظہ، وابن حبان، وصححہ الحاکم في المستدرک، وقال: صحیح علی شرط الشیخین) [3] و اللّٰه أعلم بالصواب [اے اللہ ! میں تجھ سے (تنگی کے دن نعمت اور) جنگ کے دن امن کا سوال کرتا ہوں ، اے اللہ ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں ، اس کے شَر سے جو تو نے ہمیں دیا اور جو تو نے ہم سے روک لیا۔ اے اللہ ! ہمارے لیے ایمان کو محبوب بنا دے اور اسے ہمارے دلوں میں مزین کر دے اور کفر، گناہ اور نافرمانی کو ہمارے لیے ناپسندیدہ بنا دے اور ہمیں ہدایت والے بنا دے۔ اے اللہ ! ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں فوت
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۷۷۵) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۷۴۲) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۸۰۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۷۴۲) [3] مسند أحمد (۳/ ۴۲۴) سنن النسائي، الکبریٰ (۶/ ۱۵۶) الأدب المفرد (ص: ۲۴۳) المستدرک للحاکم (۳/ ۲۶)