کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 210
’’المشي في الصلاۃ إذا کان مستقبل القبلۃ لا یفسد، إذا لم یکن متلاحقا۔۔۔ إلی قولہ: وإذا استدبر القبلۃ فسدت، کذا في الظھیریۃ، و لو مشیٰ في صلاتہ مقدار صف واحد لم تفسد صلاتہ، ولو کان مقدار صفین إن مشیٰ دفعۃ واحدۃ فسدت صلاتہ، وإن مشی إلی صف، ووقف، ثم إلی صف، لا تفسد، کذا في فتاویٰ قاضي خان‘‘ اھ۔ [دورانِ نماز قبلے کی طرف چلنا نماز کو خراب نہیں کرتا، بشرطیکہ ایسامسلسل نہ ہو۔۔۔ اگر وہ قبلے کی مخالف سمت چلے تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ ظہیریہ میں ایسے ہی ہے۔ اگر وہ اپنی نماز میں ایک صف کی مقدار میں چلے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی۔ اگر وہ یک مشت دو صفوں کی مقدار میں چلے تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ اگر وہ ایک صف کی مقدار میں چل کر ٹھہر جائے اور پھر ایک صف کی مقدار میں چلے تو اس کی نماز خراب نہیں ہوگی۔ فتاویٰ قاضی خان میں بھی ایسے ہی بیان ہوا ہے] ’’رد المحتار‘‘ (۱/ ۴۲۱ مطبوعہ مصر) میں ہے: ’’في الحلیۃ عن الذخیرۃ أنہ روي أن أبا برزۃ رضی اللّٰه عنہ صلیٰ رکعتین، آخذاً بقیاد فرسہ، ثم انسل من یدہ، فمضیٰ الفرس علیٰ القبلۃ، فتبعہ حتی أخذ بقیادہ، ثم رجع ناکصا علی عقبیہ، حتی صلی الرکعتین الباقیتین۔ قال محمد في السیر الکبیر: وبھذا نأخذ، ثم لیس في ھذا الحدیث فصل بین المشي القلیل والکثیر جھۃ القبلۃ، فمن المشائخ من أخذ بظاھرہ، ولم یقل بالفساد، قل أو کثر۔۔۔ إلی قولہ: والحدیث خص حالۃ العذر فیعمل بالقیاس في غیرھا‘‘ [مروی ہے کہ ابو برزہ رضی اللہ عنہ نے اپنے گھوڑے کی لگام کو تھام کر دو رکعتیں پڑھائیں ، پھر ان کے ہاتھ سے لگام چھوٹ گئی اور گھوڑا قبلے کی جانب بھاگ گیا۔ ابو برزہ رضی اللہ عنہ اس کے پیچھے گئے اور اس کی لگام کو پکڑ لیا، پھر اپنی ایڑھیوں کے بل واپس آئے اور باقی کی دو رکعتیں پڑھائیں ۔ امام محمد رحمہ اللہ نے ’’السیر الکبیر‘‘ میں فرمایا کہ ہم اسی سے دلیل پکڑیں گے۔ پھر یہ کہ اس حدیث میں قبلے کی جانب کم یا زیادہ چلنے میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ مشائخ میں سے بعض نے اس حدیث کے ظاہر سے دلیل لیتے ہوئے فرمایا ہے کہ نماز فاسد نہیں ہوگی، خواہ وہ تھوڑی مقدار میں چلے یا زیادہ مقدار میں ۔۔۔ مذکورہ حدیث عذر کی حالت کے ساتھ خاص ہے، لہٰذا اس کے علاوہ دیگر حالات میں قیاس پر عمل کیا جائے گا] صفحہ (۴۲۲) میں ہے: ’’وإن کان بعذر، فإن کان للطھارۃ عند سبق الحدث أو في صلاۃ الخوف لم یفسدھا، ولم یکرہ قل أو کثر، استدبر أو لا ‘‘ اھ۔