کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 207
والسترۃ، یعني قدر ممر الشاۃ، وقیل: أقل ذلک ثلاثۃ أذرع، لحدیث بلال أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم صلی في الکعبۃ، وبینہ وبین الجدار ثلاثۃ أذرع، کما سیأتي قریباً بعد خمسۃ أبواب، وجمع الداودي بأن أقلہ ممر الشاۃ، وأکثرہ ثلاثۃ أذرع، وجمع بعضھم بأن الأول في حال القیام والقعود، والثاني في حال الرکوع والسجود‘‘ انتھیٰ ما في الفتح۔ وقال في نیل الأوطار: ’’والظاھر أن الأمر بالعکس (یعني أن ثلاثۃ أذرع في حالۃ القیام وقدر ممر الشاۃ في حال الرکوع والسجود) وقال ابن الصلاح: قدروا ممر الشاۃ بثلاثۃ أذرع، قال الحافظ: ولا یخفیٰ ما فیہ، وقال البغوي: استحب أھل العلم الدنو من السترۃ، بحیث یکون بینہ وبینھا قدر إمکان السجود، وکذلک بین الصفوف‘‘[1] وقد ورد الأمر بالدنو منھا، وفیہ بیان الحکمۃ في ذلک، وھو ما رواہ أبو داود وغیرہ من حدیث سھل بن أبي حثمۃ مرفوعاً: (( إذا صلی أحدکم إلی سترۃ فلیدن منھا، لا یقطع الشیطان علیہ صلاتہ )) انتھی (فتح الباري: ۲/ ۲۸۶) [حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں : ابن بطال نے کہا ہے کہ یہ وہ کم از کم جگہ ہے، جو نمازی اور سترے کے درمیان ہونی چاہیے، یعنی بکری کے گزرنے کے برابر، ایک قول کے مطابق اس کی کم از کم مقدار تین ہاتھ ہے، کیوں کہ بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبے میں نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اور دیوار کے درمیان تین ہاتھ کے برابر فاصلہ تھا، جیسا کہ پانچ ابواب کے بعد آرہا ہے۔ امام داودی نے اس طرح تطبیق دی ہے کہ اس کی کم از کم مقدار بکری گزرنے کے برابر اور زیادہ سے زیادہ تین ہاتھ ہے۔ بعض اہلِ علم نے اس طرح بھی دونوں حدیثوں میں تطبیق دی ہے کہ پہلی کیفیت قیام اور قعدے کے وقت ہے اور دوسری رکوع و سجود کے وقت ہے۔ لیکن نیل الاوطار میں امام شوکانی نے کہا ہے کہ حدیث سے اس کے برعکس ظاہر ہوتا ہے (یعنی تین ہاتھ رکوع و سجود کے وقت اور بکری کے گزرنے کے برابر قیام و قعدے کے وقت ہے) حافظ ابن الصلاح نے کہا ہے کہ علما نے بکری گزرنے کی مقدار تین ہاتھ بتائی ہے، لیکن حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس کی کمزوری عیاں ہے۔ امام بغوی فرماتے ہیں کہ اہلِ علم نے سترے کے اس قدر قریب ہونا مستحب قرار دیا ہے کہ نمازی اور سترے کے درمیان اتنی جگہ ہو کہ بہ آسانی سجدہ کرنا ممکن ہو اور اتنا ہی فاصلہ صفوں کے درمیان ہونا چاہیے۔ سترے کے قریب ہونے کا حکم بھی حدیث میں مروی ہے، جس میں اس کی حکمت بھی بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ امام ابو داود وغیرہ سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی ایک
[1] نیل الأوطار (۳/ ۳)