کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 199
[وہ روایت اس کے مخالف ہے جسے امام طحاوی رحمہ اللہ نے یزید بن شریک سے روایت کیا ہے کہ بلاشبہ انھوں نے کہا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے امام کے پیچھے قراء ت کرنے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ پڑھو۔ میں نے پوچھا: اگرچہ میں آپ کے پیچھے ہوں ؟ تو انھوں نے کہا کہ اگرچہ تو میرے پیچھے ہو۔ میں نے پھر پوچھا کہ اگرچہ آپ قراء ت کر رہے ہوں ؟ انھوں نے کہا کہ اگرچہ میں قراء ت کر رہا ہوں ] 5۔ مصنف ابو بکر بن ابی شیبہ یہاں نہیں ہے، لیکن موطا امام محمد میں ابراہیم کا یہ قول منقول ہے: "إن أول من قرأ خلف الإمام رجل اتھم"[1] اھ۔ [یقینا سب سے پہلے جس شخص نے امام کے پیچھے قراء ت کی ، وہ ایک تہمت زدہ شخص تھا] مولوی عبدالحی صاحب مرحوم نے اس قول کے متعلق دو حاشیے لکھے ہیں ، ایک یہ ہے: "قولہ: رجل اتھم۔ قال القاریٔ بصیغۃ المجھول أي نسب إلی بدعۃ أو سمعۃ" اھ۔ [ان کا یہ قول ’’وہ آدمی تہمت زدہ تھا‘‘ علامہ قاری نے کہا ہے کہ یہ مجہول کے صیغے کے ساتھ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس آدمی کو بدعت یا ریا کاری کی طرف منسوب کیا گیا تھا] دوسرا یہ ہے: "یشیر إلی أن القراء ۃ خلف الإمام بدعۃ محدثۃ، وفیہ ما فیہ"[2] اھ۔ [یہ قول اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ امام کے پیچھے قراء ت کرنا نئی ایجاد کردہ بدعت ہے لیکن یہ محل نظر ہے] 6۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے میزان الاعتدال میں محمد بن اسحاق کے بارے میں سلیمان تیمی سے کذاب ہونا اور امام مالک سے دجال ہونا نقل کیا ہے۔ میزان الاعتدال (۲/ ۳۴۴) میں ہے: ’’قال سلیمان التیمي: کذاب‘‘ اھ۔ [سلیمان تیمی نے کہا کہ وہ کذاب ہے] نیز اسی میں ہے: "قال یحییٰ بن آدم: ثنا ابن إدریس قال: کنت عند مالک، فقیل لہ: إن ابن إسحاق یقول: اعرضوا علي علم مالک فإني بیطارہ؟ فقال مالک انظروا إلی دجال من الدجاجلۃ" اھ۔ [یحییٰ بن آدم نے کہا کہ ہمیں ابن ادریس نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں امام مالک رحمہ اللہ کے پاس تھا تو انھیں کہا گیا کہ ابن اسحاق کا کہنا ہے کہ مالک کا علم مجھ پر پیش کرو، میں اس کا معالج (تفتیش کنندہ) ہوں تو امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ دجالوں میں سے ایک دجال کو دیکھو] واضح رہے کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے میزان میں محمد بن اسحاق کا مفصل اور مبسوط ترجمہ لکھا ہے اور جروح اور تعدیلات جو کچھ ان کی نسبت واقع ہوئے ہیں ، ان کو نقل کر کے کل جروح کا جواب دیا ہے اور آخر میں اپنی رائے ان کی نسبت یوں ظاہر کی ہے: ’’فالذي یظھر لي أن ابن إسحاق حسن الحدیث، صالح الحال، صدوق، وما انفرد بہ
[1] موطأ الإمام محمد (۱/ ۲۰۱) نیز دیکھیں : مصنف ابن أبي شیبۃ (۱/ ۳۳۱، ۷/ ۲۵۸) اس اثر پر نقد و تبصرے کے لیے دیکھیں : توضیح الکلام (۲/ ۷۶۵) [2] التعلیق الممجد (۱/ ۲۰۱)