کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 198
أنہ ذکر لہ أن سعدا قال: وددت أن الذي یقرأ خلف الإمام في فیہ جمرۃ"[1] [امام محمد رحمہ اللہ نے کہا کہ ہمیں داود بن قیس فراء مدنی نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ مجھے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بیٹوں میں سے کسی نے خبر دی، انھوں نے یہ بیان کیا کہ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے یہ بات پسند ہے کہ بلاشبہ وہ شخص جو امام کے پیچھے قراء ت کرتا ہے، اس کے منہ میں آگ کا انگارہ ہو] "قال محمد: أخبرنا [داود بن قیس الفراء أخبرنا] محمد بن عجلان أن عمر بن الخطاب قال: لیت في فم الذي یقرأ خلف الإمام حجرا"[2]اھ۔ [امام محمد رحمہ اللہ نے کہا کہ ہمیں داود بن قیس الفراء نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن عجلان نے خبر دی کہ بلاشبہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کاش اس شخص کے منہ میں پتھر ہو جو امام کے پیچھے قراء ت کرتا ہے] مولوی عبد الحی صاحب مرحوم نے حاشیہ موطا میں علقمہ رحمہ اللہ کے قول کی نسبت یہ لکھا ہے: ’’ھذا تشدید بلیغ علی القراء ۃ خلف الإمام، ولا بد أن یحمل علی القراء۔ۃ المشوشۃ لقراء ۃ الإمام، والقراء ۃ المفوتۃ لاستماعھا، وإلا فھو مردود و مخالف لأقوال جمع من الصحابۃ والأخبار المرفوعۃ من تجویز الفاتحۃ خلف الإمام" [3]اھ۔ [امام کے پیچھے قراء ت کرنے کے بارے میں یہ تشدید بلیغ ہے۔ چنانچہ لازم ہے کہ اس کو اس قراء ت پر محمول کیا جائے جو امام کے لیے قراء ت کی تشویش کا باعث بنے اور وہ قراء ت جو امام کی قراء ت سے توجہ کو ہٹائے، ورنہ یہ تشدید مردود ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کے اقوال کی مخالف ہے، نیز یہ ان مرفوع اخبار و احادیث کے بھی خلاف ہے، جو امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ کی قراء ت کو جائز قرار دیتی ہیں ] سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے اثر کی نسبت یہ لکھا ہے: "قال ابن عبد البر في الاستذکار: ھذا حدیث منقطع لا یصح" [ابن عبد البر نے ’’الاستذکار‘‘ میں کہا ہے کہ یہ حدیث منقطع ہے صحیح نہیں ہے] عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کی نسبت یہ لکھا ہے: "یخالفہ ما أخرجہ الطحاوي عن یزید بن شریک أنہ قال: سألت عمر بن الخطاب عن القراء ۃ خلف الإمام، فقال لي: اقرأ، فقلت: وإن کنت خلفک؟ فقال: وإن کنت خلفي، فقلت: وإن قرأت؟ قال: وإن قرأت" [4]اھ۔
[1] موطأ الإمام محمد (۱/ ۲۰۴) یہ اثر بھی ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں : توضیح الکلام (۲/ ۷۳۸) [2] موطأ الإمام محمد (۱/ ۲۰۴) یہ ا ثر بھی منکر ہے، جس کی وضاحت آگے آرہی ہے۔ [3] التعلیق الممجد علی موطأ الإمام محمد (۱/ ۲۰۰) [4] التعلیق الممجد علی موطأ الإمام محمد (۱/ ۲۰۴)