کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 197
کے درمیان موجود واسطے کا علم ہوگیا کہ وہ ثقہ ہے تو پھر ابن ابی طلحہ رحمہ اللہ کے یہ واسطہ چھوڑ کر بیان کرنے میں کوئی نقصان نہیں ہے] 3۔ مولوی عبد الحی صاحب مرحوم لکھنوی کی کتاب ’’إمام الکلام‘‘ (ص: ۱۱۳ مطبوعہ علوی لکھنو) میں ابن عبد البر کی استذکار سے منقول ہے کہ حدیث (( وإذا قرأ فأنصتوا )) کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔ اُس کی عبارت یہ ہے: "’’وقد صحح ھذا اللفظ أحمد بن حنبل، قال أبو بکر الأثرم: قلت لأحمد بن حنبل: من یقول عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم من وجہ صحیح: (( إذا قرأ الإمام فأنصتوا )) قال: حدیث ابن عجلان الذي یرویہ أبو خالد الأحمر، والحدیث الذي رواہ جریر عن التیمي، وقد زعموا أن المعتمر أیضاً رواہ، قلت: نعم، قد رواہ، قال: فأي شيء ترید؟ فقد صحح أحمد ھذین الحدیثین"[1] اھ۔ [احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ان الفاظ کو صحیح قرار دیا ہے۔ ابوبکر الاثرم کا کہنا ہے کہ میں نے احمد بن حنبل کو کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس روایت: (( إذا قرأ الإمام فأنصتوا )) کو صحیح سند کے ساتھ کون بیان کرتا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ابن عجلان کی وہ حدیث جسے ابو خالد الاحمر روایت کرتا ہے اور وہ حدیث جسے جریر نے تیمی سے روایت کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ معتمر نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ میں نے کہا: ہاں ! معتمر نے اسے روایت کیا ہے۔ اس نے کہا کہ پھر تو اور کیا چاہتا ہے؟ کہ یقینا احمد نے ان دو حدیثوں کو صحیح کہا ہے] 4۔ موطا امام محمد (ص: ۹۸ چھاپہ مصطفائی) میں یہ ہے: "قال محمد: أخبرنا بکیر بن عامر حدثنا إبراھیم النخعي عن علقمۃ بن قیس قال: لأن أعض علی جمرۃ، أحب إلي من أن أقرأ خلف الإمام"[2] اھ۔ [محمد رحمہ اللہ نے کہا کہ ہمیں بکیر بن عامر نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ ہمیں ابراہیم نخعی نے بیان کیا، وہ علقمہ بن قیس سے روایت کرتے ہیں ، انھوں نے کہا کہ میں انگارے کو منہ میں رکھ کر چباؤں ، مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں امام کے پیچھے قراء ت کروں ] نیز اس میں ہے: "قال محمد: أخبرنا داود بن قیس الفراء المدني، أخبرني بعض ولد سعد بن أبي وقاص
[1] دیکھیں : الاستذکار (۱/ ۴۶۶) نیز دیکھیں : توضیح الکلام (۲/ ۲۴۹) [2] اس اثر کو نقل کرنے والے ’’ محمد بن الحسن الشیباني‘‘ ضعیف ہیں ۔ دیکھیں : لسان المیزان (۵/ ۱۲۱) اسی طرح ’’بکیر بن عامر‘‘ بھی ضعیف ہے اور ابراہیم نخعی کی علقمہ بن قیس سے روایت کے متعلق امام عبد الرحمن بن مہدی فرماتے ہیں : ’’أصحابنا ینکرون أن یکون إبراھیم سمع من علقمۃ‘‘ (المراسیل لابن أبي حاتم: ۹) نیز دیکھیں : توضیح الکلام (۲/ ۷۵۳)