کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 194
فرمایا: کس نے یہ کلمات کہے؟ اس شخص نے کہا: میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیس اور چند فرشتوں کو میں نے دیکھا، جھپٹے تھے ان کلموں کی طرف کہ کون ان کو پہلے لکھے گا۔‘‘ اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ اس صحابی نے یہ کلمات بآواز بلند کہے تھے، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا اور انکار نہ فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ بآواز کہنا درست ہے، ورنہ آپ ضرور منع فرماتے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عصمت اللّٰه ۔ عفا اللّٰه عنہ الأعظم گڑھی البختاورگنجی، مدرس مدرسہ أحمدیہ آرہ۔ الجواب صحیح۔ محمد عبد الرحمن المبارکفوري، عفی عنہ۔ صح الجواب و اللّٰه أعلم بالصواب، حررہ راجي رحمت اللّٰه أبو الہدیٰ محمد سلامت اللّٰه المبارکفوري الأعظم گڑھی۔ قراء ت خلف الامام سے متعلق چند سوالات: سوال: 1۔ ابو خالد احمر سلیمان بن حیان جس کو تقریب میں ’’صدوق یخطیٔ‘‘ لکھا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’جزء القراء ۃ‘‘ (ص: ۵۷) میں فرمایا: أبو خالد الأحمر عن ابن عجلان عن زید عن أبي صالح عن أبي ھریرۃ عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم (( إنما جعل الإمام لیؤتم بہ )) زاد فیہ: (( وإذا قرأ فأنصتوا )) [ابو خالد الاحمد ابن عجلان سے، وہ زید سے، وہ ابو صالح سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ امام تو اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ اس میں یہ لفظ زائد ہیں کہ جب وہ پڑھے تو تم خاموشی اختیار کرو] اس ابو خالد سے امام بخاری رحمہ اللہ و مسلم رحمہ اللہ نے اپنی دونوں صحیح میں کہیں روایت کی ہے یا نہیں ؟ 2۔ تفسیر ابنِ کثیر میں یہ عبارت ہے یا نہیں : ’’قال علي بن أبي طلحۃ عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما قولہ:﴿وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْآنُ﴾ یعني في الصلاۃ المفروضۃ‘‘ [علی بن ابی طلحہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ یہ آیت﴿وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْآنُ﴾ فرض نماز کے متعلق ہے] اول تو میرے خیال میں یہ عبارت ہی غلط ہے۔ یعنی علی نے ابن عباس سے کہا۔ یعنی قول کا صلہ عن کے ساتھ۔ یہ میرا خیال درست ہے یا نہیں ؟ دوم: تقریب میں ہے: ’’علي بن أبي طلحۃ سالم مولیٰ بني العباس، سکن حمص، أرسل عن ابن عباس، ولم یرہ‘‘