کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 184
عملِ کثیر ہے۔ ’’در مختار مع رد المحتار‘‘ (۱/ ۴۶۰ چھاپہ مصر) میں ہے: ’’وفیہ أقوال خمسۃ، أصحھا: ما لا یشک بسببہ الناظر من بعید في فاعلہ أنہ لیس فیھا، وإن شک أنہ فیھا أم لا، فقلیل‘‘اھ۔ [اس میں پانچ اقوال ہیں ، ان میں سے سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ فاعل کا وہ عمل جس کے سبب دور سے دیکھنے والے کو یہ شک نہ ہو کہ وہ اس (نماز) کا حصہ نہیں ہے۔ اگر اسے یہ شک گزرے کہ آیا یہ عمل نماز کا حصہ ہے یا نہیں تو وہ عمل، عملِ قلیل شمار ہوگا] ’’رد المحتار‘‘ میں ہے: ’’القول الثاني: ما یعمل عادۃ بالیدین کثیر، وإن عمل بواحدۃ کالتعمم وشد السراویل۔ الثالث: الحرکات الثلاث المتواترۃ کثیر۔ الرابع: ما یکون مقصودا للفاعل، بأن یفرد لہ مجلسا علیٰ حدۃ۔ الخامس: التفویض إلی رأي المصلي فإن استکثرہ فکثیر‘‘[1] اھ۔ [دوسرا قول یہ ہے کہ وہ عمل جو عادتاً دونوں ہاتھوں کے ساتھ ہوتا ہے، وہ عملِ کثیر ہے، اگرچہ وہ یہ عمل ایک ہاتھ کے ساتھ کرے، جیسے پگڑی اور شلوار باندھنا۔ تیسرا قول یہ ہے کہ پے در پے تین حرکتیں کرنا عملِ کثیر ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ عملِ کثیر وہ ہے جو فاعل کا مقصودی عمل ہو اور وہ اس کے لیے علاحدہ مجلس قائم کرے۔ پانچواں قول یہ ہے کہ اس معاملے کو نمازی کی رائے کے سپرد کیا جائے، چنانچہ وہ جس عمل کو کثیر جانے، وہ عملِ کثیر ہوگا] ان اقوال میں سے کسی قول پر کوئی دلیل کافی نہیں ہے۔ یہ سب اقوال رائے پر مبنی ہیں ، جس سے نصوصِ کتاب و سنت کی تقیید جائز نہیں ہے۔ گو اِن میں سے بعض کو بعض پر ترجیح بھی رائے ہی سے ہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ اگر اس مجموعہ کا عملِ کثیر ہونا مان بھی لیا جائے تو بھی اس کا مفسدِ نماز ہونا مسلم نہیں ہے، کیونکہ عملِ کثیر مطلقاً مفسدِ نماز نہیں ہے، بلکہ وہی عملِ کثیر مفسدِ نماز ہے، جو نماز کی اصلاح کے لیے نہ ہو اور جو عملِ کثیر نماز کی اصلاح کے لیے ہو، وہ مفسدِ نماز نہیں ہے، مثلاً کسی کو نماز میں حدث ہوجائے اور وہ وضو کرنے کے لیے جائے اور پھر وضو کر کے پلٹے تو یہ مجموعہ عمل مفسدِ نماز نہیں ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ نماز کے سدھارنے کے لیے ہے۔ در مختار (ص: ۶۴۰) میں ہے: ’’ویفسدھا کل عمل کثیر لیس من أعمالھا ولا لإصلاحھا‘‘ [ہر وہ عملِ کثیر، جو نماز کے اعمال سے ہو نہ اس کی اصلاح کی غرض سے، نماز کو فاسد کر دے گا] دوسری دلیل [مانعین کی] یہ ہے کہ قرآن دیکھ کر پڑھنا دوسرے سے قرآن سیکھ کر پڑھنا ہے اور یہ مفسدِ نماز ہے۔ ہدایہ (۱/ ۵۶) میں ہے: ’’ولأنہ تلقن في المصحف فصار کما إذا تلقن من غیرہ‘‘ اھ۔ [اور اس
[1] رد المحتار (۱/ ۶۲۵)